اختتامِ سفر پر الوداع لوامز ۔ ماجد حیدر

413

اختتامِ سفر پر الوداع لوامز

تحریر: ماجد حیدر 

دی بلوچستان پوسٹ

اہلِ دانش کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے مشکل کام سچ اورحقیقت کو تسلیم کرنا ہے۔ آٹھویں سمسٹر میں پہنچ کر پہلی بار یہ احساس ہوا کہ واقعی حقیقت کو تسلیم کرنا شدید دِقت آمیز ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یونیورسٹی میں آٹھویں سمسٹر میں پہنچ کر پھر سب کو بادل ناخواستہ اس عظیم درسگاہ کو رخصت کرنا ہی ہوگا۔ لیکن اِس حقیقت کو تسلیم کرنا دل کو کوہِ ہمالیہ کی چٹانوں سے زیادہ گِران محسوس ہے۔ الوداع کی تصور سے دل برف کی طرح پگھلنے لگتی ہے۔ سانسیں گلے میں اَٹکنے لگتے ہیں۔ الوداع کی درشت لفظ کو زبان پر لاتے ہوئے زبان لرزنے لگتی ہے۔ بظاہر یہ ایک عام لفظ ہے۔ لیکن آج یہ ایک حرف جگر ٹکڑے جیسے میرے پیارے دوستوں کے درمیان پہاڈ بن کر کھڑی ہو رہی ہے۔ جن کے وجود سے آج روح کو تسکین ملتی ہے۔ جن کو دیکھ کر دل کو چین و سکون ملتی ہے۔ یہ ایک لفظ آزاد زندگی سیر و تفریح ہنسی مذاق پیار و محبت کے محفلوں کو مجھ سے ایک آمر بادشاہ کی طرح چھین رہی ہے۔ حرفِ الوداع علم و ادب کے محفلوں، راحت و سنگیت کی مرکز فٹبال گراؤنڈ اور لومز کے دل لُبھانے خوشگوار شاموں اور لومز چار سال کی خوبصورت یادوں کے درمیان دیوارِ چین کی طرح حائل ہورہی ہے۔

رخصت کی تصور نے دل کو آٹھویں سمسٹر کے شروع ہی سے یادوں کے ابواب کو ایک ایک کر کے کھنگالنے پر مجبور کیا۔ چار سال کے یادوں کی مختلف دریچوں کو کھنگالتے ہوئے احساس ہوا کہ زندگی کی بہترین دن یہی دن تھے۔ جن سے ہمیں ہمیشہ شکایت رہی۔ کبھی ہم اُتھل کی جسم کو جھلسانے والے گرمی کو لعن تعن کرتے تھے۔ کبھی میس کے بد حالی سے تنگ آکر چند دنوں کیلئے اپنے سیلف کوکنگ شروع کرتے تھے۔لیکن چند ہی دنوں میں یہ جذبہ تھم جاتی تھی۔ امتحانات سے ہمیشہ وحشت ہوتی تھی۔ امتحان کی تیاری کسی طرح آسانی سے کرلیتے تھے۔ لیکن امتحان ہال مسلسل تین گھنٹہ بیٹھ پیپر لکھنا طبیعت کو شدید کرب میں مبتلا کرتی تھی۔ پریزینٹیشن اور اسائمنٹس کا بوجھ ہمیشہ سر رہتی تھی۔ لیکن ان کیلئے شارٹ کٹ راستے ہم نے دریافت کیا تھا۔ پورے چار سال تک ہمیں ہمیشہ یونیورسٹی لائف سے کسی نہ کسی طرح شکایت رہی۔ لیکن اب آخر میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ زندگی کے بہترین دن یہی تھے جو انجان میں گزر گئے۔

یادوں کے صفوں کو پلٹتے ہوئے فرسٹ سمسٹر کے وہ دن یاد آئے۔ جب یہاں آیا تھا۔ تو سر پر صرف اور صرف مطالعہ کا جنون سوار تھا۔ سب دوستوں سے الگ گوشہ نشینی کو معمولِ زندگی بنایا۔ اسپورٹس اور موبائل سے کنارہ کشی اختیار کی۔ زوقِ مطالعہ اس قدر تھی کہ روزانہ آٹھ گھنٹے پڑھنے کی باوجود دل پر ہمیشہ یہ احساسِ جرم رہتا تھا کہ میں وقت ضائع کر رہا ہوں۔ اسی دوران پڑھنے کی ایک رِدم بنی جو آخر تک کسی حد تک قائم رہی۔ کورس زیرِ مطالعہ رہتا تھا۔ لیکن کورس کے کتابوں سے زیادہ رغبت نہیں تھی۔ لیکن سوشیولوجی کی کتابیں دل چسپی سے خالی نہیں تھے۔ کارل مارکس، میکس ویبر، ایمائل درخائم، جورج سِمل کے تھیوریز معاشرے کی بہترین عکاسی کرتے تھے۔ اسی دوران بہت سے کتابوں اور مصنفوں کو پڑھنے کا کچھ موقع ملا۔ غالب سے لیکر اقبال تک۔ مشتاق احمد یوسفی سے لیکر پطرس تک۔ شوکت صدیقی سے لیکرمنٹو تک۔ قدرت اللہ شہاب سے لیکر اشفاق احمد اور واصف علی واصف تک۔ بانو قدسیہ سے عمیرہ احمد تک۔ شبلی نعمانی سے لیکر مفتی تقی عثمانی تک۔ مولانا مودودی سے لیکر وحید الدین خان تک سب کو کچھ نہ کچھ پڑھنے کا موقع ملا۔ رشیہ(روس) کی شاہکار ادیبوں میکسم گورکی، فیودر دوستوئیفسکی، لیو ٹالسٹائی سے ایک آدھ تعرف ہوئی۔ نوم چوسکی ہنری کسنجر، جورج ہوروِل، اِکارٹ ٹولے اور اِلف شفاک وغیرہ کسی قدر نظر سے گزرے۔

سیکنڈ سمسٹر کے وہ دن خوب یاد آئے کہ جب مکمل ایک سمسٹر کی ریاضت و عزلت نے تنہائی کے احساس سے شاعر کی زبانی دل کی حالت کچھ ایسی کر دی تھی کہ

نہ کوئی دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا

سناؤں کس کو غم اپنا الم اپنا فغاں اپنا

یونیورسٹی کے طور و طریق سے آشںنا ہونے بعد یہ احساس ہوا کہ چار سال کی یہ سفر تنہا انجام کو پہنچ نہیں سکتی۔ یہ سفر فضائے دوستاں کے بغیر صعوبتوں سے دوچار ہوگا۔ اِسی وقت مزاج کی شناسی وسیم اور جاوید سے ہوئی تھی۔ جو روزانہ شام کے وقت روم پر چھاپہ مار کر زبردستی مجھے اٹھا کر کھبی معراج کبھی سعودیہ ہوٹل کا رخ کرتے تھے۔ شام کی اِضطراب اور اداسی کی کیفیت سے، اور اِس شام میں روح کو تڑپانے والے تنہائی کی احساس سے ہر شخص متعارف ہوگا۔ لیکن اُتھل کی شاموں کی تنہائی اداسی اور اضطراب سے العیاز باللہ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کی دنیا کی تمام اضطراب اداسیوں اور تنہائیوں کی سر چشمہ یہی ہے۔ لیکن اِن ہوٹلوں میں بیٹھ کر ہم شام کی اضطراب، تنہائی اور اداسی کا مذاق اُڑاتے تھے۔ ان دوستوں کی دیوان میں بیٹھ کر اداسی اور تنہائی کے بھوت کو قریب سے گزرنے بھی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ وسیم کی پر مزاح شخصیت کے ہوتے ہوئے بوریت کو سر اٹھا نے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ساتھ میں زکریا ہر چھوٹی بات ایسے گلا پھاڑکر ہنستاتھا جیسے اُنہیں ہنسنے کا معاوضہ مل رہی ہو ۔ تنز و مزاح وسیم کی سرشت میں شامل تھی۔ لیکن وسیم کے شیرین آواز کو سنتے ہوئے بڑے بڑے سنگر چھوٹے محسوس ہوتے تھے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری نہیں رکھ سکے۔ گویا محفل کی شمع بجھ گئی۔

دوستوں کے ساتھ بِتائے ساعت خوب یاد آئے۔ کلاسس کے بریک ٹائم پر میں اور جاوید خوشحال کے کینٹین جاتے تھے۔ کینٹین میں بیٹھ کر ہمارے درمیان ہمیشہ چیزیں لانے پر بحث ہوتی تھی۔ جاوید کی ضد ہوتی تھی کہ آپ چائے وغیرہ لے آئے۔ اور میرا اصرار ہوتا کہ نہیں آپ چائے وغیرہ لے آئیں۔ کبھی کبھی یہ فیصلہ ٹاس پر ہوتا تھا۔ کبھی کبھی گھنٹوں بیٹھے ایسے خالی پیٹ پلٹ کر چلے جاتے تھے۔ کلاس فیلوز کے ساتھ گزارے وقت، ہنسی مزاق، بُھلانے کے قابل نہیں۔ کلاس میں ہم نے زبردستی الطاف کو CR بنایا تھا۔ جو نہ صرف کلاس ایکٹیوٹیز کا CR تھا۔ بلکہ کلاس فیلوز کے تمام کاموں کا CR تھا۔ کینٹین سے چائے لانے، غیر حاضر اسٹوڈنٹس کے حاضری برابر کرنے، فیس جمع کرنے، روم میں چائے بنانے سب کی زمہ CR پر تھا۔ اگر کبھی کوئی کام کرنے سے انکار کرتا تو ہم اُسے فوراً یاد دلاتے تھے کہ پھر آپ CR ہو کس بات کی؟ کلاس فیلوز کیلئے میرا روم گویا ایک قسم کا بیٹھک تھا۔ جہاں ہم سب دوست راشد شریف، اکرم دیوار، علی آحمد اور الطاف حسین بیٹھ کر پیپرز کی تیاری کرتے تھے۔ ساتھ میں خواجہ حبیبو(حبیب روم میٹ) کے چائے ہمیشہ تیار رہتی تھی۔ پیپرز کے تیاری کے بہانے کئی گھنٹہ ہنسی مذاق میں گزار دیتے تھے۔ اور آخر نوٹ بک پر دو چار لفظ لکھ کر سب اُٹھ چلے جاتے تھے۔

ہم ڈسٹرکٹ فیلوز حافظ ناصر، غفورریحان، ابرار برکت، راشد شریف، شاہباز قادر، بشیر بدر، مقبول، شاہ زیب بشیر، حافظ عظمت، خلیل، شکیل، راشد راشدی، اورنگزیب، شہید مسعود، آصف، عبید، عابد، حمید پرویز، شاہ جان، عمران ، عامر،فیض اور لطیف ہمیشہ ایک فیملی کی طرح ایک ساتھ ہوتے۔ کبھی کبھی ہم کونڈ ملیر پکنک منانے کیلئے روانہ ہوتے۔ کبھی ہم کھرڈی کے سر سبز شاداب وادیوں میں پکنک منانے جاتے۔ جہاں شاہباز قادر، شہید مسعود اور عبید کو پِلیٹ میں مچھلی پکڑنے کی ایک الگ مہارت تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے کی ڈھیر سارے مچھلیاں پکڑتے تھے۔ پھر رات دیر تک بیٹھ کر ان مچھلیوں کے آدھے حصے پکاتے اور باقی حصہ کو کباب کرتے تھے۔ ساتھ میں حمل آزاد بریانی کی دیگ تیار کرتے اور اورنگزیب کڑائی بنانے کا کام سر انجام دیتے۔ اور باقی دوست ایک طرف روشنی کیلئے ایک آگ جلاتے۔ اور سارے پروانہ کی طرح آگ کے ارد گِرد بیٹھ کر ایک محفل سا ماحول بناتے۔ بشیر بدر کی کِٹلی ہمیشہ دوستوں کے کپ خالی ہونے انتظار میں ہو تی تھی۔ محفل کو رونق بخشنے اور ہنسنے ہنسانے کی ذمہ گویا شاہ زیب بشیر، مقبول، حافظ عظمت اور خلیل کے تھے۔ جن کے ٹوک بازی اور تنز و مزاح سے ہنس ہنس کے سب کا برا حال ہوتا۔ اسی ہنسی مزاق میں پورے رات گزر جاتی تھی۔ سحر کی وقت اُفق سے روشنی سر اٹھا تے ہی ہم ھاسٹل پہنچ جاتے تھے۔

ادب دوستی کی بنا پر لومز کے براہوئی شاعروں اور ادیبوں سے اچھے تعلقات تھے۔ خود تو کوئی ریختہ نویس نہیں تھا۔ لیکن ہمیشہ اُن کے بزمِ سخن کا حصہ بنتا رہا۔ ابرار بر کت، سراج سمین، احسان عبید اور شہزاد شہزی کے کلام سن کر یہ احساس ہوتا تھا کہ براہوئی بولی میں فیض احمد فیض، حبیب جالب اور آحمد فراز کی کوئی کمی نہیں ہیں۔ لیکن شومئیِ قسمت، فرق صرف اتنا ہے کہ براہوئی اردو کی طرح ( بولنے والوں کے لحاظ سے) ایک بڑی زبان نہیں ہے۔ کہ ہر طرف سے ان گمنام شاعروں کو داد و تحسین اور پزیرائی ملے۔ ان کے پر سوز و پر فکر تخلیقات کو نشر اشاعت کا کوئی موقع ملے۔ ان کے تخلیقات طلوع ہونے سے پہلے غروب کے شکار ہوتے ہیں۔ داد و تحسین نشر و اشاعت دور کی بات ہے۔ انہیں ہمارے اپنے معاشرے کے لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

یادوں کی فہرست میں سب سے دلچسپ اور خوبصورت باب “فٹبال اور گراونڈ” چشمِ تصور سے گزرے۔ فٹبال کی شوق شروع ہی سے تھا۔ لیکن جامعہ کی ابتدائی سال میں کھٹن معمول اور مطالعہ کی وجہ سے فٹبال کو زیادہ وقت نہیں دے سکتا تھا۔ لیکن وقت ساتھ ساتھ جامعہ کی باقی طلباء کی طرح مطالعہ کی گراف نیچے آتا گیا اور فٹبال کی گراف اوپر چھڑتا گیا۔ ابتدائی دنوں میں سینیئر پلیئروں اور ان کے کھیل سے نا واقف تھا۔ کچھ وقت تک ان کی کھیل کی پٹڑی پر چل نہیں سکا۔ کیونکہ سینیئر پلیئرز باسط، چنگیز، بابے، امیر جان، جاوید، اشفاق اور اسفند۔ ان سب کے ایک گروپ بنی تھی۔ جو جس طرف ہوتے تو فٹبال کو مجال نہیں تھا کہ غلطی سے کسی دوسرے پلیئر کو چھوجاتا۔ پورے میچ میں دو تین دفعہ بڑی مشکل سے فٹبال ہمارے پاؤں سے ٹکرا جاتا۔ اس طرز بہت سے جونیئر پلیئر تنگ آکر فٹبال چھوڑدیتے تھے یا گراؤنڈ کے احاطے میں اپنے حساب سے کھیلتے۔ لیکن کچھ جونیئرز کے ساتھ سینئرز کے ساتھ کھیلتا رہا۔ اور آھستہ آھستہ ان کے میچ سے واقف ہوتا گیا۔ اور پھر فٹبال کی شوق دوبالا ہو گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ کا سب سے ریگولر رہا۔ اگر کبھی کسی عذر کی سبب ایک دن گراؤنڈ نہیں جاتا۔ تو سارے پلیئر اس کو نوٹ کر لیتے اور دوسرے دن نہ آنے کی سبب پوچھتے۔

آخر میں طبیعت گراؤنڈ سے اس قدر مانوس ہوگئی تھی کہ روزانہ پریکٹس شروع ہونے سے قریب ایک گنٹہ پہلے گراؤنڈ پہنچ جاتا تھا۔ گراؤنڈ کی خوبصورت نظارہ اور روح کو صحت بخشنے والی ہوائیں تمام دن کی تھکاوٹ کو دور کر دیتے تھے۔ سبزہ کی بچھونا، فٹبال کی تکیہ نرم و ملائم قالینوں تکیھوں سے کئی زیادہ پُر سکون محسوس ہوتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر چند لمحوں کیلئے خیالات ایسے رخصت ہوجاتے ہے جیسے ان سے مرا برسوں کی ناراضگی ہو۔ بجلی کی تاروں پہ بیٹھے چڑیوں کی چہچاہٹ گاؤں کی کھیتوں کی یاد دلاتی تھی۔ سکوت خلوت اور راحت کی یہ دلاویز لمحے بہت جلدی بیت جاتے تھے۔ کچھ پل بعد پلیئرز حمید، سلمان، نُعمان، مُدسر سہیب،آفتاب، ایک ایک کرکے ایسے بھوجل قدموں سے آتے تھے، جیسے ھاسٹل میں انہیں پیٹ پیٹ کر زبردستی گراؤنڈ بھیج دیا گیا ہو۔ قریب ایک گھنٹے میں سارے پلیئرز آکر پریٹس شروع کرتے تھے۔ لیکن یہاں سے اٹھ کر پریکٹس شروع کرنا طبیعت کو شدید ناگوار گزرتی تھی۔ لیکن بِن یامِن اور بلال کے بار بار کی ڈانٹ ڈپٹ بلآخر مجھے اُٹھ کر پریکٹس شروع کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ یوں روز کی معمول کی طرح سب سے پہلے آکر سب سے آخر میں پریکٹس شروع کرتا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ میں فٹبال میں کوئی بڑا نام نہیں بنا سکا۔ ایک دو دفعہ یونیورسٹی کی مین ٹیم میں سلیکٹ نہ ہونے م پر دل شکستہ ہو کر فٹبال کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہنے کی عزم کرلی لیکن پھر دوستوں کی اصرار نے دوبارہ فٹبال شروع کرنے پر مجبور کیا۔ یہ سب ایک طرف۔ لیکن ایک پلیئر ہونے کی حیثیت سے فٹبال سے خوب لطف اندوز ہوا۔ لومز کے اس چار سال کی سفر میں رونق فٹبال ہی بدولت آئی۔ فٹبال ہی لومز سے وجہِ محبت بنی۔ اسی لئے اس پورے چار سال کے عرصے میں لومز سے کبھی بیزاری محسوس نہیں ہوئی۔ اسی کی سبب دوستوں کی فہرست طویل ہو گئی۔ جن کے زیست سے زندگی میں رونق نظر آتی ہے۔

یادوں کی پن پن دل کو افسردگی و اداسی میں مبتلا کرتی رہی۔ یادوں کی دنیا سے جب باہر آیا تو معلوم ہو کہ رخصتی کی وقت آچکی ہے۔ تو آج میں بڑے حساسیت کے ساتھ دل پر جبر کرکے لومز کے اُن تمام دوستوں کو الوداع کہتا ہوں۔ جو چار سال کی اِس سفر میں ہر خوشی اور غم و تکلیف میں شانہ بہ شانہ رہے۔ جن کی وجہ سے اس سفر میں بہار آئی۔ میں ان تمام معزز اساتذہ کو الوداع کہتا ہوں۔ جنہوں نے ہمیں علم و شعور عطاء کیا۔ پیار و محبت اور انسانیت کی درس دی۔ جنہوں نے ہمیں زندگی کی مشکلوں سے لڑنا سکھایا۔ الوداع میرے تمام کلاس فیلوز کو جن کی مدد و سہارہ کے بغیر شاید یہ سفر ادھورہ ہی رہ جاتا۔ ڈسٹرکٹ کے تمام دوستوں کو الوداع کہتا ہوں جن کو اپنی حقیقی بھائی کی طرح ہر وقت ساتھ پایا۔ الوداع الفت و تفریح و مرکز کے فٹبال گراؤنڈ اور فٹبال کے دوستوں کو جن کے سبب اس سفر میں زینت آئی۔ جائے مسکن ھنگول ھاسٹل روم B3 کے ساتھ لومز کے تمام در و دیوار اور اُتھل کے پرامن شہر کو الوداع جہاں اس پورے سال کے عرصے میں جنگ و جھگڑا دور کی بات کسی کو کسی سے تلخ کلامی کرتے ہو نہیں دیکھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں