امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکہ یوکرین کو ایف سولہ لڑاکا طیارے فراہم نہیں کرے گا تاکہ اسے روسی حملے کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکے۔
وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کے ایک سوال کے جواب میں کہ کیا وہ ان لڑاکا طیاروں کو کیف بھیجنے کی حمایت کرتے ہیں جیسا کہ یوکرین کے متعدد رہنماؤں نے ایسا کرنے کا کہا ہے۔
بائیڈن نے جواب دیا نہیں ۔ مغربی ممالک نے بالآخر اس ماہ یوکرین کو جدید ٹینک فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔ یہ ٹینک نیٹو ممالک کی فوجوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔
اس حمایت نے کیف کو امید دلائی کہ وہ اپنی فضائیہ کو مضبوط کرنے کے لیے جلد ہی ایف سولہ لڑاکا طیارے حاصل کر لے گا تاہم مغرب میں اس معاملے پر اب بھی بحث جاری ہے۔
بیانات فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے پیرکے روز اوائل میں اس اعلان کے بعد سامنے آئے ہیں کہ یوکرین کو روسی حملے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے لڑاکا طیارے فراہم کرنا خارج از امکان نہیں ہے۔ انہوں نے تنازع بڑھنے کے خطرے کا انتباہ بھی کیا۔
ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹے کے ساتھ دی ہیگ میں بات چیت کے بعد فرانسیسی صدر نے کیف کی جانب سے اسے لڑاکا طیارے فراہم کرنے کی درخواست پر پورا اترنے کے امکان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اصولی طور پر کچھ بھی خارج از امکان نہیں ہے، لیکن اگر تین معیارات پورے کیے جائیں۔
پہلا یہ ہے کہ یوکرین کی فوج کے لیے اس طرح کی سپلائی کی افادیت اور فزیبلٹی ہے۔ خاص طور پر اہلکاروں کی تربیت کے دورانیے کے لحاظ سے فزیبلٹی کو دیکھنا ہوگا۔ دوسرا معیار یہ ہے کہ سپلائی صورتحال کو مزید خراب نہیں کرے گی۔ جو کچھ ہم فراہم کرتے ہیں اس سے روسی علاقے کو متاثر نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان چیزوں کو صرف یوکرین کی حفاظت میں استعمال کرنا ہوگا۔ تیسرا معیار یہ ہے کہ اس سے ہماری دفاعی صلاحیتوں کو کمزور نہیں ہونا چاہیے۔
میکرون نے یہ زور بھی دیا کہ فرانس کا خیال ہے کہ یوکرین کو فراہم کیے جانے والے ہتھیاروں کو روسی زمینوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ دسمبر میں کیل انسٹی ٹیوٹ فار دی ورلڈ اکانومی جو ایک جرمن تحقیقی مرکز ہے نے ایک مطالعہ تیار کیا تھا جس میں یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کے حامیوں کی رینکنگ میں امریکہ پہلے اور فرانس دسویں نمبر پر تھا۔