بلوچستان ہائیکورٹ میں حق دو تحریک کے احتجاج کے دوران گوادر میں ہونے والی گرفتاریوں کے خلاف دائر درخواست پر آج سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے حکومتی اقدامات پر برہمی کا اظہار کیا۔
درخواست کی سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس شوکت رخشانی نے کی اور ایڈووکیٹ جنرل آصف ریکی اور درخواستگزار کے وکیل راحب بلیدی عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ راجب بلیدی نے کہا کہ حکومت نے تربت اور گوادر میں فورسز کا بے دریغ استعمال کیا اور بے قصور 300 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
وکیل راحب بلیدی نے کہا کہ گوادر کے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی میں بھی مسائل ہیں۔
عدالت نے حکومتی اقدامات پر برہمی کا اظہار کیا، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ حکومت کیوں ایسے غیر قانونی اقدامات کررہی ہے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ مظاہرین حق کے لئے احتجاج کررہے ہیں ان پر مظالم کیوں کئے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل آصف ریکی نے جواب دیا کہ احتجاج کی آڑ میں کارِسرکار میں مداخلت اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، ان لوگوں نے خواتین اور بچوں کو ڈھال بنایا، انٹرنیٹ سسٹم کو جلایا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ایم پی او کا کیا طریقہ ہے، ان کے خلاف کیس کر کے کارروائی کریں، بے گناہوں کو کیوں پریشان کر رہے ہیں۔
جس پر آصف ریکی نے کہا کہ ہم نے ان کے خلاف مقدمات بھی درج کئے ہیں، ان کی تفصیلات بھی پیش کریں گے۔
عدالت نے مزید کہا کہ یہ جس ڈی سی نے ایم پی او جاری کئے ہیں اس کو مشکلات آجائیں گی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور انتظامیہ کی نالائقی اور نااہلی ہے کہ وہ ایسے معاملات کو نہیں سنبھال سکتی۔
عدالت نے چیف سیکریٹری، سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس، گوادر اور تربت کے ڈی سیز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت دس روز کیلئے ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں گزرے سال کے دسمبر میں حق دو تحریک اپنے مطالبات کی حق میں پورٹ کے سامنے دھرنا پر کریک ڈاؤن اور گرفتاریاں کی گئی جبکہ دس دن شہر میں انٹرنیٹ کو بند کیا گیا۔