برطانوی جریدے فنائنشنل ٹائمز نے کہا ہے کہ پاکستان انتہائی نازک موڑ سے گذر رہا ہے، اس صورتحال میں پاکستانی معیشت کے ڈوبنے کا خطرہ ہے۔
رطانوی جریدے کی رپورٹ میں مرکزی بینک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بندرگاہوں پر درآمدی سامان سے بھرے سینکڑوں کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ خریدار کے پاس ادائیگی کے لیے ڈالرز نہیں ہیں۔
بین الاقوامی کمپنیوں اور ایئرلائن کی ایسوسی ایشن نے خبردار کیا کہ پاکستان نے غیرملکی ایئرلائنز کے ڈالرز روک رکھے ہیں جس کے سبب پاکستان انڈسٹری کو واجب الادا فنڈز روکنے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔
حکام نے کہا کہ توانائی اور وسائل کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹیکسٹائل مینوفیکچر جیسی دیگر فیکٹریاں بند ہورہی ہیں۔ میکرو اکنامک انسائٹس کے بانی ثاقب شیرانی نے کہا کہ ملک میں متعدد صنعتیں بند ہوچکی ہیں، اگر صنعتوں نے اپنا کاروبار دوبارہ بحال نہ کیا تو اس کے نتیجے میں طویل مدتی نقصانات ہوسکتے ہیں- تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال غیر مستحکم ہوتی جارہی ہے، ملک کی صورتحال ڈیفالٹ کا شکار ملک سری لنکا کی طرح ہوسکتی ہے جہاں زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے عوام کو اشیائے ضروریات کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق پاکستان کے غیر ملکی ذخائر 5 ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئے ہیں جو ایک ماہ کیلئے درآمدات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں دوسری جانب شہباز شریف کی حکومت آئی ایم کے ساتھ 7 بلین ڈالر کے امدادی پیکج کو بحال کرنے پر تعطل کا شکار ہے۔ عالمی بینک کے سابق مشیر عابد حسن نے کہاکہ پاکستان کے لیے ہر ایک دن انتہائی اہم ہے، اس صورتحال سے باہر نکلنے کا واضح راستہ نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر پاکستان ایک یا 2 ارب ڈالر کا رول اوور کرانے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو چیزیں اتنی خراب ہیں کہ اس سے صرف عارضی مدد ہی مل سکتی ہے۔
پاکستانی وزیر احسن اقبال نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ غیر ملکی کرنسی کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں پاکستان کی درآمدات ’انتہائی‘ کم ہوگئی ہیں۔ تجزیہ کاروں نے کہاکہ درآمد کنندگان کے لیے بینک کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ نہ کھولنا بھی ایک وجہ ہے جس کے باعث اسٹیل انڈسٹری کی اپنی پیداوار بند کرنے کی دھمکی دی ہیں۔
مرکزی بینک نے کہا کہ وہ خوراک اور ایندھن جیسی ضروری اشیاء کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے درآمدی پابندیوں میں نرمی کر رہا ہے۔ پاکستان اب بھی گذشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب سے دوچار ہے جس سے تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔
بین الاقوامی قرض دہندگان نے رواں ماہ جنیوا میں ہونے والی ڈونر کانفرنس میں پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے 9 بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ رقم کیسے اور کب آئے گی اس بارے میں ابھی بات چیت جاری ہے۔