نئے سال پر جبری گمشدگیوں میں تیز لہر – ٹی بی پی اداریہ

184

نئے سال پر جبری گمشدگیوں میں تیز لہر
ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں گزشتہ سال کا اختتام گریشہ سے دو طالب علموں، سرگودھا یونیورسٹی میں لاء کے طالب علم سراج نور اور عارف گاجیان کے جبری گمشدگی سے ہوا اور نئے سال کے شروع ہونے کے بعد بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ اور ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے اب تک آٹھ نوجوان جبری گمشدگی کا شکار ہو چُکے ہیں۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی کو بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اکیسوی صدی کے پہلے دہائی میں شروع ہونے والی جدجہد کو روکنے کے لئے جدوجہد سے وابستہ سیاسی کارکنوں اور جہدکاروں کی جبری گمشدگی شروع کی گئی اور ہزاروں جبری گمشدہ افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں سڑک کناروں اور ویرانوں سے ملنا شروع ہوا اور اب مبینہ طور پر پولیس کی کاؤنٹر ٹیریرزم ڈیپارٹمنٹ جعلی مقابلوں میں جبری گمشدہ افراد کو مارنے میں ملوث ہے۔

جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان سے ہزاروں لوگ جبری طور پر گمشدہ ہیں اور جبری گمشدگیوں کا تسلسل جاری ہے۔ ماما قدیر اور لاپتہ افراد کے لواحقین تیرہ سالوں سے جبری گمشدہ افراد کے بازیابی کے لئے پریس کلب کراچی اور کوئٹہ کے سامنے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے طویل عرصے سے جدوجہد کررہے ہیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے تسلسل سے احتجاج، ریلیاں اور دھرنے ہورہے ہیں۔

جبری گمشدگیوں سے ہزاروں خاندان معاشی اور نفسیاتی طور پر متاثر ہیں لیکن پاکستان کے ارباب اختیار صرف کمیشن بنانے میں مصروف ہیں، بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات پر بنائے گئے اعلیٰ اختیاراتی پارلیمانی کمیشن صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو کی صدارت میں بنایا گیا ہے جو بلوچستان میں لوگوں کے جبری گمشدگیوں سے انکاری ہیں۔ اس طرح کے کمیشن سے جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لئے اُن کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے اور دوسری طرف عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی سے بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چُکا ہے