میں گوریلا کیوں بنوں؟ (حصہ اول) ۔ ناشناس بلوچ

884

میں گوریلا کیوں بنوں؟ (حصہ اول) 

تحریر: ناشناس بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ 

“جنگ بہ نام جنگ بہ عِوض امن بہ خودمختاریِ بلوچستان”

جنگ/گوریلا جنگ کا تجزیاتی مطالعہ

جنگ جو امن کی متضاد ہے، جنگ کا نام سُن کر قرع ارض پہ بسے انسان بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔مگر جو اپنی قومی بقاء کی سوچتے ہیں،جو   زندگی، شوق، ذاتی خواہشات، رشتوں کے احساسات کو مسخ کرتے ہیں۔ وہ جنگ کو خوش آمدید کہہ کر پہاڑوں کو سجاتے ہیں اور انہی پہاڑوں کے سینوں کو چیر کر خاک کی امانت ہوتے ہیں/یا خود کو فدا کرکے فضا میں امر ہوتے ہیں تاکہ انکی بندوق کی آواز قومی آزادی کی اذان ہو۔

جنگ دو فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کے درمیان تنازع کے نتیجے میں ہونے والے تصادم کو کہا جاتا ہے۔ جنگ کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جنگ مسلح بھی ہوسکتی ہے اور سرد جنگ بھی۔ مسلح جنگوں کے دوران فریقوں، قبائل، قوموں یا ملکوں کی مسلح افواج اپنی ملک و قوم کے دفاع کے لیے آگے آتے ہیں اور اپنی قوم، افراد کو آنے والے خطرات سے بچاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگوں

کے نتیجے میں بے دریغ انسانی جانوں کا زیاں ہوتاہے، لاکھوں افراد مارے جاتے ہیں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں اور جنگ کی ایک قسم جسے “گوریلا”کہتے ہیں۔

گوریلا جنگیں دنیا کے مختلف حصوں میں صدیوں سے لڑی جا رہی ہیں۔ جب ہم گوریلا جنگ کی تاریخ کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ گوریلا جنگ کا تصور سب سے پہلے چینی دانشور سن زو نے 500 قبل مسیح میں اپنی کتاب THE ART OF WAR میں پیش کیا تھا اور پہلی گوریلا جنگ 217 قبل مسیح میں روم کے QUINTAS FABIUS نے جرنیل HANNIBAL BARCA کی فوج کے خلاف لڑی تھی۔ اسی لیے انہیں FATHER OF GUERRILLA WARFARE کا خطاب دیا جاتا ہے۔ گوریلا جنگ کو سیاسی اساس مارکس اور لینن کے نظریات نے فراہم کی اور ان نظریاتی بنیادوں پر بیسویں صدی میں بہت سے گوریلا فوجیوں نے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کیں اور کامیاب انقلاب برپا کیے۔

ان جنگوں کا طریقہ کار اور نفسیات روایتی جنگوں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ روایتی جنگ میں دو ممالک کی فوجیں وردی پہنے ایک دوسرے سے میدان جنگ میں بر سر پیکار ہوتی ہیں لیکن گوریلا جنگ میں انقلابی فوجیوں کا ایک چھوٹا سا دستہ استعماری فوج کی بھاری نفری پر شب خون مارتا ہے۔ گوریلا فوجیوں کا مقصد جنگ جیتنا نہیں ہوتا بلکہ استعماری فوج اور حکومت کو حیراں اور پریشاں کر کے ہراساں کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ تھک ہار کر خود ہی واپس چلے جائیں۔

گوریلا فوجی چاہتے ہیں کہ دشمن کا اس قدر جانی اور مالی ، سیاسی اور فوجی نقصان ہو کہ وہ خود ہی جنگ سے دست بردار ہو جائیں اور گوریلا فوجی آزادی حاصل کر لیں۔ یہ آزادی بیرونی طاقتوں سے بھی ہو سکتی ہے اور مقامی آمرانہ حکومتوں سے بھی۔ گوریلا فوجی جابرانہ‘ ظالمانہ اور غیر منصفانہ حکومتوں کو ہٹا کر عادلانہ اور منصفانہ نظام قائم کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

گوریلا کی اصطلاح انگریزی زبان میں 1809 میں متعارف ہوئی تھی۔ یہ اصطلاح بنیادی طور پر ہسپانوی زبان کی اصطلاح تھی۔ گویرا guerra کا مطلب جنگ۔ گوریلا guerrilla کا مطلب چھوٹی جنگ اور گوریلیرو کا مطلب گوریلا فوجی تھا۔

یہ اصطلاحیں اس دور میں مقبول عام ہوئیں جب نپولین بوناپارٹ نے 1808 میں سپین پر حملہ کیا اور ہسپانوی گوریلا فوجیوں نے 1814 میں نپولین کو شکست فاش دی۔ وہ جنگ ہسپانوی قوم کے لیے آزادی کی جنگ تھی۔ اس کامیابی کے بعد گوریلا جنگ ساری دنیا میں مقبول ہو گئی اور پچھلی دو صدیوں میں بہت سی مظلوم و مقہور و مجبور قوموں نے اس طرز کی جنگ کو اپنی آزادی کے لیے استعمال کیا اور کامیاب ہوئے۔

سپین کی انیسویں صدی کی گوریلا جنگ سے پہلے اٹھارہویں صدی میں برطانوی حکومت کے خلاف امریکہ میں گوریلا جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ کا سہرا فرانسس میریون   اور اس کے ساتھیوں کے سر جاتا ہے۔ فرانسس میریون 1732 سے 1795 تک زندہ رہے۔ برطانوی فوجی ان سے اتنے نالاں رہتے تھے کہ انہوں نے فرانسس میریون کو THE SWAMP FOX کا نام دے رکھا تھا کیونکہ ان کی نگاہ میں فرانسس ایک لومڑ کی طرح چالاک تھے جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں حملہ کرتے اور دن کی روشنی میں غائب ہو جاتے۔

فرانسس میریون اور ان کے ساتھی رات کے وقت برطانوی فوج کے گھوڑے اور کھانے کا سامان بھی چرا کر لے جاتے۔ برطانوی فوجی اتنے حیران پریشان اور ہراساں ہوتے کہ فرانسس میریون کے بارے میں کہتے

‏HE FIGHTS NEITHER LIKE A GENTLEMAN NOR LIKE A CHRISTIAN

برطانوی حکومت اور فوج نے انہیں قتل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ فرانسس میریون برطانوی فوج سے کہیں زیادہ ہوشیار اور زیرک تھے۔

“لینن اور گوریلا جنگ”

لینن نے 1906 میں گوریلا جنگ کے بارے میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا اور گوریلا جنگ کی اہمیت ، افادیت اور نفسیات پر روشنی ڈالی۔ اس مقالے میں انہوں نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں سیاسی شعور بیدار ہو جائے اور وہ اپنی اجتماعی زندگی میں سماجی‘ معاشی اور سیاسی تبدیلیاں لانی شروع کر دیں تو وہ استعماریت کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اپنے دشمن کو زیر کرنے کے کئی طریقے اپناتے ہیں۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ گوریلا جنگ کا بھی ہے۔

جب لوگ ہم سے گوریلا جنگ کا جواز پوچھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ مارکسزم کا فلسفہ غریبوں کسانوں اور مزدوروں کے انقلاب میں ہر قسم کی جنگ کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ ماکسزم کے فلسفے پر عمل کرنے والے انقلابی تاریخ کا معروضی تجزیہ کرتے ہیں اور بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی حالات کے ساتھ اپنے جنگ کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں۔

جہاں تک روس کے سیاسی حالات کا تعلق ہے روس میں مزدوروں نے 1896 سے 1900 تک اور 1901 اور 1902 میں طالب عملوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے پر امن ہڑتالیں کیں۔ لیکن جب ان کی پرامن ہڑتالوں کو اصحاب بست و کشاد نے طاقت سے روکنے کی کوشش کی تو پھر مزدوروں اور طالب عملوں نے 1906 میں مل کر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 1906 تک پہنچتے پہنچتے روس میں مسلح جدوجہد انقلاب لانے کے لیے ناگزیر ہو چکی تھی۔ ہماری نگاہ میں مسلح جدوجہد کے دو راستے ہیں۔ پہلے راستے پر چلنے والے انقلابی ظالم و جابر حاکموں اور جرنیلوں کو قتل کرتے ہیں۔

دوسرے راستے پر چلنے والے انقلابی حکومت فوج اور پولیس کے وسائل اور سرمایہ داروں کی دولت پر قبضہ کرتے ہیں لیکن وہ وسائل اور دولت کسی فرد کی جیب یا بینک میں جانے کی بجائے انقلابی پارٹی کی تحویل میں دیے جاتے ہیں تاکہ وہ وسائل انقلاب کی تحریک کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں۔

روس میں غربت بھوک اور بے روزگاری اس حد تک شدید ہو چکی تھی کہ ان سے نجات کا واحد طریقہ مسلح جدوجہد تھا۔ انقلابی اس فرق کو جانتے ہیں کہ انقلاب کی جارحیت مجرمانہ نہیں سیاسی ہے۔

‏IT IS POLITICAL VIOLENCE NOT CRIMINAL VIOLENCE

اس جارحیت کا مقصد بینک لوٹنا نہیں بلکہ انقلاب کی راہ ہموار کرنا ہے۔ جو لوگ جارحیت کی نفسیات اور فرق کو نہیں سمجھتے اور انقلابیوں کی مدد کرنے کی بجائے حکومت فوج اور پولیس کی مدد کرتے ہیں وہ انقلاب کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو انقلاب دشمن سمجھتے ہیں۔

ہم اس جنگ کو گوریلا جنگ کہتے ہیں جو مزدوروں کسانوں اور غریبوں کی زندگیاں بدلنے کے لیے انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہے اور عوام کو بہتر زندگی کے خواب دکھاتی ہے۔ گوریلا جنگ اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب اسے عوام کی حمایت حاصل ہو۔ گوریلا فوجی اور ان کے رہنما جتنے منظم ہوں گے وہ جنگ اتنی ہی کامیاب ہوگی اور انقلابیوں کا حوصلہ اور اعتماد اور بہتر مستقبل کی امید بڑھائے گی۔

گوریلا جنگ سماجی شعور کو ایک قدم آگے بڑھاتی ہے اور انقلاب کی راہ ہموار کرتی ہے۔ وہ انقلابی جدوجہد کا ناگزیر حصہ ہے۔

“گوریلا جنگ کے ادوار”

ایک کامیاب گوریلا جنگ چار ادوار سے گزرتی ہے

پہلے دور میں گوریلا رہنما اس جنگ کی تفاصیل طے کرتے ہیں اور اپنے فوجیوں کی تربیت کرتے ہیں۔ گوریلا فوجی روایتی فوجیوں سے اس مختلف ہوتے ہیں۔ روایتی فوجیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے معاملات سے دور رہیں جبکہ گوریلا فوجیوں کی تربیت میں فوجی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ نظریاتی ٹریننگ بھی شامل ہوتی ہے۔ ایک گوریلا فوجی بھی ہوتا ہے اور سیاسی کارکن بھی۔

دوسرے دور میں گوریلا فوجی اور رہنما عوام کو جنگ کے لیے تیار کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ عوام کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہوگی۔

تیسرے دور میں گوریلا فوجی حکومت فوج اور پولیس کے اصحاب بست و کشاد پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ رات کی تاریکی میں حملے کرتے ہیں اور شب خون مارنے کے بعد پراسرار طریقے سے غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ ایک طویل جنگ ہوتی ہے جو کئی ہفتوں اور مہینوں سے بڑھ کر کئی سالوں اور دہائیوں تک پھیل سکتی ہے۔ اس جنگ کے لیے میراتھون رنر کے صبر اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔

چوتھے دور میں گوریلا فوجی فتح کا جشن مناتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ فوجی انقلاب کے بعد کیسے سیاسی ، معاشی اور سماجی انقلاب کی راہ ہموار کریں۔

تاریخ گواہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ بیسویں صدی میں چین میں ماؤ زے تنگ، ویت نام میں ہوچی منہ ، کیوبا میں کاسٹرو اور چے گویرا نے کامیاب گوریلا جنگیں لڑی ہیں۔

گزرے ہوئے یا موجودہ غلام قوموں کی طرح بلوچ بھی غلامی کے زمرے میں آتا ہے کہ بلوچ کے  وسائل،زبان،روایات،حتہٰ کہ بلوچ کے وجود کو بھی خطروں کے شکنجے میں ڈالنے کیلئے پنجابی سامراج نے ناکام کوششیں کی اور کر بھی رہا ہے۔یوں کہنا بھی درست ہے کہ کامیاب بھی ہوا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا بلوچ نے ماضی کے غلام اقوام کی طرح  مزاحمت کی یا کررہی ہے؟ تو اسکا جواب ایک بلوچ لکھاری فخر سے اثبات میں دیگا۔

“کہ بلوچ گوریلا جنگ یا تحریک آزادیِ بلوچستان جو کہ پاکستانی/پنجابی سامراجیت کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اب تک بلوچ سرمچاران قابض کے خلاف پہاڑوں پر بر سرِ پیکار ہیں اور انکی منزل واضحتاََ  قومی آزادی ہے” اور اسی آزادی کو پانے کیلئے بلوچ قوم کے متعدد افراد شہید یا زنجیاں،بچے یتیم،عورتیں بیوہ اور قابض کی طرف سے بلوچ نسل کشی اب تک جاری ہے اور قابض کی نفسیات میں ہیکہ جب تک وہ شکست و پاش نا ہو مقبوضہ قوم یا لوگوں کی نسل کشی کرنے کو اپنے لئے فرض سمجھتا ہے اور قابض انہی فرائض کے مد میں متعارف بھی ہوتا ہے اور پاکستانی سامراجانہ رویہ بھی دنیا یا بلوچ قوم کے سامنے سفید پوش کے مانند واضح ہے۔اور گرانقدر بلوچ سیاسی/مزاحمتی راہبران انہی مزاحمت کی تسلسل میں زندگی کی سفر کو الوداع کہہ چکے ہیں مگر انکی نظریہ جو آزادی کے ساتھ وابستگی اختیار کرچکی ہے اب تک مسلسل نشونما پارہی ہے۔ جیسا کہ(جنرل اسلم بلوچ) جو کہ بدر کی طرح تاحیاتِ بلوچاں روشن ہیں۔اسی بلوچ مزاحمت کی روداد سے شاید کہ کوئی ذی شعور بلوچ ان پڑھ یا پڑھا لکھا آشنا نا ہو۔پیدا ہوتے ہی ہر فرزندِ بلوچ کے کانوں میں سب سے پہلے غلامی کی بانگ بالواسطہ یا بلاواسطہ گونجتی ہے۔اور اسی طرح جب زندگی کے دنوں کو گزارتا جائیگا/اس میں سوچنے کی صلاحیت نشونما پائیگی تو اسے غلامی کا احساس ضرور ہوگا/یہ ہوسکتا ہے کہ اسکے احساس سطحی ہوں مگر ان احساس کو وہ سیاسی وابستگیوں،لٹریچر وغیرہ کی مدد سے جامد کرنے میں کامیاب ہوگا اور اپنی قومی بقاء کی خاطر گوریلا محاذوں پر ڈٹے رہنے کا عہد کرلیتا ہے(جنگی عہد) وہ عہد جو بقاء کی ضامن ہو،وہ عہد جو کسی گوریلا مسافر کی سفر کو منزل تک پہنچنے کو مدد کرے۔

تو ایک فرد اگر اسے ضروریات زندگی میسر ہوں اور وہ اس شے سے آشنا بھی ہو کہ یہ میسر شدہ ضروریات اسکی مستقبل سنوارنے کو کافی ہیں؟

مگر سوچ میں خلل اس وجہ سے پڑتا ہیکہ ضروریات،آسائش اور آسودگی آیا یہ خود خواہشاتی غلامی یا فردی سکونیت کے زمرے میں نہیں آتے؟

بلوچ قوم میں ایسے ہزاروں نام ملینگے جنکی آسائش شاید کسی پنجاب کی چوہدری سے کم ہوں! مگر انکی آسودگی پر غلامی کے دھبے لگے ہوئے تھے تو انہوں آسائشوں وِداع کیا اور ان دھبوں کو مٹانے کیلئے قوم کی بقاء کیلئے شہادت پاکر امرہوئے ہیں یا زندانوں میں غلامی کے دن گِن رہے ہیں یا قومی جہد کا حصہ ہوکر تسلسل کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں