روس کا کہنا ہے کہ سال نو کے موقع پر راکٹ حملے میں اس کے جو 89 فوجی ہلاک ہوئے، وہ ممانعت کے باوجود موبائل فون استعمال کر رہے تھے۔ یکم جنوری کی نصف شب کو یوکرین نے ماکیفکا میں ایک کالج کو نشانہ بنایا تھا۔
روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ اس کے زیر قبضہ ڈونیٹسک علاقے کے ماکیفکا میں یوکرین کے میزائل حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 89 ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے اس نے یکم جنوری کے حملے میں 63 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
واضح رہے کہ یکم جنوری کو یوکرین نے ماکیفکا کے اس کالج پر راکٹ سے حملہ کیا تھا، جہاں بڑی تعداد میں روسی فوجی جمع تھے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس کے فوجی ممانعت کے باوجود موبائل فون کا استعمال کر رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ نشانہ بن گئے۔
یوکرین نے دعویٰ کیا تھا کہ سال نو کے پہلے روز یعنی اتوار کو اس کے میزائل حملے میں تقریباً 400 روسی فوجی مارے گئے اور تین سو کے قریب زخمی ہوئے، جبکہ ماسکو نے بدھ تک اس واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد 63 بتائی تھی، جسے اب 89 کر دیا گیا ہے۔
روس نے تازہ بیان میں کیا کہا؟
روسی وزارت دفاع کی طرف سے بدھ کو علی الصبح جاری ایک ویڈیو بیان میں لیفٹیننٹ جنرل سرگئی سیوریوکوف نے کہا کہ ”ہمارے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کی تعداد 89 ہو گئی ہے۔” انہوں نے کہا کہ ماکیفکا قصبے میں ملبے تلے دبی ہوئی مزید لاشیں ملنے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
سیوریوکوف کا مزید کہنا تھا کہ اس حملے کی وجہ روسی فوجیوں کی طرف سے موبائل فون کا استعمال ہے۔ انہوں نے کہا: ”یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا اس کی سب سے بڑی وجہ ممانعت کے باوجود موبائل فونز کو آن کرنا اور بڑے پیمانے پر اس علاقے میں استعمال کرنا ہے، جہاں تک دشمن کے ہتھیاروں کی پہنچ تھی۔”
انہوں نے مزید کہا، ”اسی عنصر نے دشمن کو میزائل حملے کے لیے فوجیوں کے مقام کا پتہ لگانے اور ان کا تعین کرنے میں مدد کی۔”
روس کا کہنا ہے کہ نئے سال کے دن مقامی وقت کے مطابق رات کے تقریباً سوا بارہ بجے ایک ووکیشنل کالج پر امریکی ساختہ ہمارس راکٹ سسٹم سے چھ راکٹ فائر کیے گئے، جن میں سے دو کو فضا میں ہی مار گرایا گیا۔
بیان کے مطابق رجمنٹ کے ڈپٹی کمانڈر، لیفٹیننٹ کرنل بچورین، ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ ماسکو کے مطابق ایک کمیشن واقعے کے حالات کی تحقیقات کر رہا ہے۔
ہلاکتوں سے روس میں غم و غصہ
سال نو کے موقع پر روسی فوجیوں کی ہلاکت پر عوام میں کافی غم و غصہ ہے تاہم سوشل میڈیا پر یہ غصہ صدر ولادیمیر پوٹن کے بجائے روس کے فوجی کمانڈروں پر اتارا جا رہا ہے۔
روس کے حامی بعض فوجی بلاگرز نے موبائل فون کی وضاحت کو ”جھوٹ” قرار دیا اور روسی کمانڈر پر ”مجرمانہ طور پر لاپرواہی” برتنے کا الزام لگایا ہے۔ ان کے مطابق روسی کمانڈرز اپنی افواج کو محاذ جنگ پر چھوٹے گروپوں میں منتشر کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بعض روسی مبصرین اور سیاست دانوں نے بھی فوج پر نااہلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ فوجیوں کو کبھی بھی اس طرح کی کمزور رہائش گاہ نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
ڈونیٹسک میں روس کی پراکسی اتھارٹی کے ایک سابق سرکردہ اہلکار پاول گوباریف کا کہنا ہے کہ ایک ہی عمارت میں بڑی تعداد میں فوجیوں کو رکھنے کا فیصلہ ”مجرمانہ غفلت” تھی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ”اگر اس غفلت کے لیے کسی کو سزا نہیں دی گئی، تو یہ اور بھی خراب بات ہو گی۔”
پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر آندرے میدویدیف نے کہا کہ یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ اس کے لیے فوجیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا، کیونکہ مقامی کمانڈر نے بہت سے فوجیوں کو ایک ہی جگہ پر رکھنے کا اصل فیصلہ کیا۔
یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی نے منگل کو اپنے ویڈیو خطاب میں یکم جنوری کے اس حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ روس اپنی اس شکست خوردہ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ایک بڑا حملہ کرنے والا ہے۔
زیلنسکی نے ایک ویڈیو خطاب میں کہا، ”ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ روس کے موجودہ آقاؤں نے جو کچھ بھی ان کے پاس ہے، وہ اسے پھینکیں گے اور ہر اس شخص کو استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جو جنگ کا رخ موڑ سکتا ہو۔ اس سے وہ کم از کم اپنی شکست میں تاخیر کر سکتے ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ہمیں اس روسی منظر نامے کو نقصان پہنچانا ہے۔ ہم اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔”