عورت ۔ مریم عبدالله

360

عورت

تحریر: مریم عبدالله

دی بلوچستان پوسٹ

عورت ایک ایسی تخلیق ہے جسے سماج میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اک سماج کو پورا کرنے اور نکھارنے کیلئے مرد اور عورت دونوں کا کردار لازمی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ امتیازی سلوک کی وجہ سے صدیوں سے آتی سوچ نے مرد اور عورت کے درمیان ایک حد قائم کی ہوئی ہے جسے پار کرنا عورت کے لیے ممانعت مانی جاتی ہے۔

‘عورت’ جس کے کندھوں پر سماج کی بڑھوتری کا ذمہ ہے، جو خود کی زندگی کی خوشیوں اور آسائشوں سے دستبردار ہو کر اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگی کو سنوارنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے اُسی عورت کو سماج اپنے پیروں تلے کی خاک تصور کرتی ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود مرد کی غلبہ گیری میں کوئی کمی نہیں آئی، سو فیصد میں سے دس فیصد نکال کر باقی نوے فیصد مرد آج بھی تنگ نظری کا شکار ہیں جو عورت کو صرف نسل بڑھانے کی ایک مشین یا ہوس اتارنے کی ایک اوزار سمجھتے ہیں۔

عورت بلند ترین سطح پر ہونے کے باوجود مرد کی نظر میں حقیر اور بے بس رہتی ہے اور اس کی اوقات و حیثیت کا فیصلہ بھی مرد ہی کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب مرد اپنا غیرت اور شعور ثابت کرنا چاہتا ہے یا کسی دشمن سے روبرو ہوتا ہے یا پھر اپنا خشم و غضب نکالنا شروع کرتا ہے تو عورت کو ہتھیار بنا کر اس پر وار کرتا ہے، اپنی عورتوں کی عزت پہاڑوں جیسی بلند اور دوسرے عورتوں کی عزت خاک تصور کرنے والے مرد اکثر غصہ اتارنے کے لئے دوسروں کی ماں بہنوں پہ گالیوں کی برسات کر دیتے ہیں اور خود کو باغیرت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مردوں نے خود کو اتنا عظیم الشان بنایا ہے کہ سماج میں سب سے بڑا وحشی بن کر عورتوں کو نگلنے کے باوجود اُن سے احترام اور عورتوں کو اُن کے پابند ہونے کی توقع رکھتے ہیں اور یہی صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔

گوکہ آج دنیا بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے انسان کی سوچ میں کافی حد تک تبدیلی بھی آئی ہے، عورت اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا بھی سیکھ گئے ہیں لیکن اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ آج بھی کچھ ایسے لوگ اور سماج موجود ہیں جو عورت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور ان پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں۔عورتوں کی پوشاک سے لیکر اُن کے رہن سہن تک، کس کے ساتھ کہاں کہاں جانا چاہیے اِن سب کا اختیار مرد اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں ایسے لوگوں کی وجہ سے عورت کے پیر زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بنیادی حقوق سے محروم دنیا کے تمام تر معاملات سے بےخبر یہ عورتیں بند خانوں میں لاشعور جانور کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

بعض اوقات دقیانوسی تصورات صدیوں پرانے تاریخ کی انکشافات کرتے ہیں جو لاشعوری اور بے تعلیمی کی جھلک دکھاتے ہیں۔ جب عورت کو اپنی صلاحیتوں کی احساس ہونے لگیں تو وہ مرد کے برابر خود کو کھڑا کرنے کی جتن میں لگ گئیں۔ پہلے پہل عورت کو خود اپنی ذات چھپانے کے لئے لیکن مردوں کے برابر کھڑے ہونے کی جو تجسّس پیدا ہونے لگی وہ اسی مبہم کے شکار تھے کہ کہیں اُن کی فطری استعداد کو صرف عورت ہونے کے بِنا پر نظرانداز نہ کیا جائے۔

اگر ہم تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو ایسے کئی واقعات سے روبرو ہونگے، عورت ہر معاملے میں ملوث ہونے لگی لیکن انکی استعداد کو مرد کی سماج میں کبھی سراہا نہیں گیا۔ حتی کہ ادبیات میں بھی پہلے جب عورتوں نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو انہیں اپنا نام تک ذکر کرنے کی اجازت نہیں تھی اسی لیے pseudonym استعمال کر کے اپنے فنون دنیا کے سامنے لانے لگے انہی میں سے George Eliot اور Bronte sisters جیسے کئی مصنف عورتوں کے اوپر لکھنے لگے اُن کی لکھاوٹ عورتوں کی زندگی کا آئینہ تھیں جو اپنے حقوق کی جدوجھد اور مشقت میں مبتلا تھیں۔ جونہی وقت گزرنے لگا عورت اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کی ہمت رکھنے لگی، زندگی کے ہر شعبے میں آج بھی خود کو نکھارنے اور آگے بڑھنے کی کوشش میں دن بہ دن لڑنے میں مگن ہیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہوا جب عورت تعلیم و شعور کی طلبگار بنی، یہ شعور ہی ہے جو انسان کی حقائق اجاگر کرتی ہے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ہمت دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ سماج ان عورتوں پر اپنی مرضی مسلط کرتا ہے جو خود کی حقوق سے بیگانہ ہیں، جو مرد کی نظروں سے دنیا دیکھتے اور انکے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ جب سماج میں صحیح معنوں میں شعور اور بیداری پیدا ہو تو مرد اور عورت دونوں کو علم ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالی نے دونوں کو برابر بنایا ہے، جیسے کوئی بچہ اپنے ماں کی خون و گوشت سے بنتی ہے اور ماں اپنا سارا خیال اور پیار اس پر لٹا دیتی ہے اسے ہر معاملے میں آگے رکھتی ہے اسی طرح عورت مرد کے پسلی سے پیدا ہوئی تاکہ اسکے برابر کھڑی رہ سکے، اس کا پیار اور عزت پا سکے، اسکی پشتیبان بن سکے اور اس کو اونچائیوں میں اڑان بھرنے میں مدد کر سکے ناکہ اس کو نازک تتلی کی طرح اپنے پیروں تلے مسلا جائے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں