ریاست جس طریقے سے بلوچستان کو چلانا چاہتی ہے اس طریقے سے مزید نہیں چلایا جاسکتا ۔ لشکری رئیسانی

331

بلوچستان پیس فورم کے سربراہ سابقہ پاکستانی سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی نے ہفتے کے روز نشتر ہال پشاور میں نیشنل ڈائیلاگ آن دی ری ایمیجنگ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رحمن بابا، خوشحال خان اور نوری نصیر خان کے وطن کے لوگ اپنے قومی حقوق اور وسائل پر اختیار چاہتے ہیں، بلوچستان کو ساتھ لیکر چلنے کا واحد راستہ آئین، انسانی حقوق1940ء کی قرار داد خان آف قلات اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدہ پر عملدرآمد کرکے وسائل پر دستردس دینے میں ہے، بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کو بازیاب کرکے انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، بلوچستان کی آئندہ نسلوں کے وسیلہ کو لوٹنے کیلئے اسمبلی کا خفیہ اجلاس طلب کرکے جعلی قانون سازی کے ذریعے ریکوڈک کا سودا کیا، اگر پارلیمنٹ سمجھتی ہے وہ آزاد اور خودمختار ہے تو پارلیمان میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات پر مبنی رپورٹ، افغان پالیسیوں، ضیاء الحق کی بنائی گئی پالیسیز پر بحث کرے۔

نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ رحمن بابا، خوشحال خان اور نوری نصیر خان کے وطن کے لوگ اپنے قومی حقوق اور وسائل پر اختیار چاہتے ہیں وہ لوگ اور قوتیں جو بلوچستان کے لوگوں کو زبردستی اپنے ساتھ لیکر چلنا چاہتے ہیں ان کیلئے پیغام ہے کہ بلوچستان کے لوگ قطعاً زبرستی قبول نہیں کرتے 1948ء میں خان آف قلات اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے تحت بلوچستان اس ملک کا حصہ بنا مگر افسوس اس معاہدے پر 75 سال گزرنے کے باوجود عملدرآمد نہیں ہورہا، اس قسم کے معاہدات وزیرستان، بہالپور اور خیر پور سندھ کے لوگوں کے ساتھ بھی کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ 1940ء کی قرارداد میں یہ ضمانت دی گئی تھی وفاق کے پاس صرف دفاع، کرنسی اور مواصلات کے اختیارات ہوں گے باقی تمام اختیارات قومی اکائیوں کے پاس ہوں گے مگر 75 سال بعد بھی قومی اکائیوں کے اختیارات سلب رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 7 سے 28 تک قوموں کے انسانی بنیادی حقوق پر مبنی ہیں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں تو ان کو چائیے کہ آئین میں موجود انسانی حقوق سے متعلق تمام شقوں پر عملدرآمد کریں صوبوں کے قومی حقوق کا احترام کرتے ہوئے انہیں ان کے وسائل پر اختیار دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں راتوں رات بننے والی سیاسی جماعت نے رات کی تاریکی میں آئین کو پامال کرتے ہوئے بلوچستان کی آئندہ نسلوں کے وسیلہ کو لوٹنے کیلئے اسمبلی کا خفیہ اجلاس طلب کرکے جعلی قانون سازی کے ذریعے ریکوڈک کا سودا کیا۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے باپ پارٹی بنائی وہ اب اس جماعت کے لوگوں کو ایک اور سیاسی جماعت میں شامل کررہے ہیں ان رویوں اور طریقے سے ریاست کو نہیں چلایا جاسکتا۔

انہوں نے کہاکہ وہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ملک کے آئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے جس دن کمیٹی کے ممبران آئین پر ستخط کررہے تھے تب میڈیا اس کو نظر انداز کرکے ایک نو بیاہتا جوڑے کی شادی کی کوریج میں مصروف تھا انہوں نے کہا کہ ایک طرف آئینی ترمیم پر دستخط ہورہے تھے تو دوسری جانب بلوچستان میں آئین، انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا تھا لوگ لاپتہ کئے جارہے تھے جس پر انہوں نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا کیوں کہ وہ بلوچستان کے لوگوں اپنے وطن اور تاریخ کے نمائندہ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وہ ایک سیاسی کارکن ہیں اور پرامن جدوجہد کے قائل ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست جس طریقے سے بلوچستان کو چلانا چاہتی ہے اس طریقے سے مزید نہیں چلایا جاسکتا، بلوچستان کو ساتھ لیکر چلنے کا واحد راستہ آئین اور انسانی حقوق پر عملدرآمد کرکے وسائل پر دستردس دینے میں ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے معاملات کو سنجیدہ نہیں لیا تو ہمارے بعد آنے والے لوگ اس آئین اور 1940ء کی قرار داد اور 1948ء میں خان قلات اور محمد علی جناح کے درمیان ہونے والے معاہدہ پرعملدرآمد کا بھی مطالبہ نہیں کریں گے بلکہ کوئی اور راستہ اختیار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 73 سال سے ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں اس سے باہر نہیں نکل سکے، اگر پارلیمنٹ سمجھتی ہے وہ آزاد اور خودمختار ہے تو پارلیمان میں حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات پر مبنی رپورٹ، افغان پالیسیوں، ضیاء الحق کی بنائی گئی پالیسیز پر بحث کرے۔

انہوں نے کہا کہ جب ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین پر عملدرآمد،صوبوں کو حقوق ملیں گے، ووٹ کا تقدس پامال نہیں ہوگا اور پارلیمنٹ اسٹے پر نہیں چلے گی تو تب ہم ایک نئے پاکستان کی طرف بڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی یہاں موجود سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواء کے سیاسی اکابرین کے ساتھ بلوچستان کی آواز ملاکر یہ مطالبہ کرنے آئے ہیں کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کو بازیاب کرکے انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ان کے ورثاء اور بلوچستان کے لوگوں کو پتہ چلے کہ ان کے پیاروں کو کس جرم کی پاداش میں لاپتہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت تمام پابند سلاسل سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جائے، طلباء یونیز پر عائد پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔