درد کے نام
تحریر:محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ مائیں جب درد سے بھر جاتی ہیں، جب درد ان کے دامن گیر ہوتا ہے، جب وہ رو تی ہیں، بہت رو تی ہیں،چیختی ہیں، چلا تی ہیں،ماتم کرتے کرتے ماتم کدہ بن جاتی ہیں، آپ ہی صلیب بن کر آپ ہی مصلوب ہو تی ہیں،آپ ہی یسوع بن کر،یسوع کو تلاشتی ہیں،مریم کا غم بن کر برستی ہیں،بے روح بن کر مولا کو تلاشتی رہتی ہیں تو کاش ان کے اختیار میں اتنا تو ہوتا کہ
”گفتند جھاں ما آیا یہ تومے سازدا
گفتم کہ نہ مے سازو،گفتند کہ برہم زن!“
”پوچھا””ہمارا جہاں تم سے بن کر چلتا ہے؟““
جواب دیا”نہیں!بن کر نہیں چلتا
”کہنے لگے”تہس نہس کردو“
کیا یہ مائیں اس جہاں کو تہس نہس کر سکتی ہیں
یہ مائیں تو اپنے من میں لگی آگ کو ٹھنڈا بھی نہیں کر سکتیں،اپنے دامن میں لگی آگ کو آنسوؤں سے بجھا بھی نہیں سکتیں،درد کو دور بھی نہیں کر سکتیں،درد کو رفو کر کے چل بھی نہیں سکتیں۔صلیب سے اتر بھی نہیں سکتیں۔ان دیکھے ہاتھوں نے ان ماؤں کو مصلوب کر دیا ہے۔یہ سولی چڑھی ہوئی ہیں۔نہیں معلوم اور کب تک مصلوب رہیں گی؟یسوع تو ایک بار مصلوب ہوکر دھرتی کے سینے میں سو گئے مریم تو ایک مسیح کورو دھوکر یروشلم کی گلیوں میں رہ گئی،پران ماؤں کے مسیح تو ہر بار مصلوب ہو تے ہیں،ہر بار سولی چڑھتے ہیں اور یہ مائیں ہر بار اپنے کاندھو ں پر یسوع کی صلیب کا بار محسوس کرتی ہیں۔
یہ مائیں اتنی بار روئیں ہیں اگر یہ رونا یروشلم کی گلیوں میں ہوتا،تو اک مریم کیا،اک صلیب کیا،اور اک ہروشلم کیا ان آنسوؤں کے سیلاب میں سب کچھ ڈوب جاتا
پر ایسا نہیں
اور ان ماؤں کا رونا یروشلم کی گلیوں میں نہیں
ان ماؤں کا رونا مریم کی آنکھوں کا رونا نہیں
یہ رونا بلوچ دھرتی کے پہاڑوں کا رونا ہے
یہ رونا بلوچ دھرتی کے وسیع دامن کا رونا ہے
یہ رونا عشق کا رونا ہے
یہ رونا محبت کا رونا ہے
یہ رونا مریم کا رونا نہیں
یہ سفر مریم کا سفر نہیں
یہ صلیب یسوع کی صلیب نہیں
یہ رونا ان ماؤں کا ہے جن کے پیر سسئی کے سفر جیسا ہے
یہ صلیب بلوچ ماؤں کی ہے
جس پر وہ ہر وقت مصلوب رہتی ہیں
تو یہ مائیں اس مولا کی دنیا کو تہس نہس کیسے کریں جن کا رونا مولا تو کیا پر ان ایوانوں تک بھی نہیں پہنچ پاتا جن ایوانوں میں کرسی اور گالیوں کو بہت شور ہے اور ماؤں کے آنسو کوئی سیلاب نہیں لا تیں!
تو یہ مائیں آپ ہی ماتم آپ ہی ماتم کدہ ہیں
آپ ہی دامن اور آپ ہی درد ہیں
آپ ہی سڈ(آواز)آپ ہی (کوک)چیخ ہیں
آپ ہی مریم اور آپ ہی مصلوب ہیں
حالاں کہ ان ماؤں کو آپ ہی پنہوں اور آپ ہی سسئی بننا تھا
پر درد نے ان ماؤں کو آپ ہی یسوع اور آپ ہی صلیب کر دیا ہے
یہ مائیں درد کی صلیب سے کب اتریں گی؟
اور ان کے درد کا سفر کب ختم ہوگا
یہ درد کا سفر تو ہر روز طویل تر ہوتا جا رہا ہے
تو اگر خدا درد کے پیچھے ان ماؤں سے مخاطب بھی ہو اور ان مریم جیسی ماؤں سے پوچھے بھی کہ
”گفتند جھاں ما آیا یہ تومے سازدا
گفتم کہ نہ مے سازو،گفتند کہ برہم زن!“
”پوچھا””ہمارا جہاں تم سے بن کر چلتا ہے؟““
جواب دیا”نہیں!بن کر نہیں چلتا
”کہنے لگے”تہس نہس کردو!“
تو یہ مائیں اس جہاں کو کیسے تہس نہیں کر پائیں گی جن سے اپنے پیروں کی وہ جو تی ہی نہیں اُٹھائی جاتی جو درد والی دھول سے بھر گئی ہے۔
جن کے پیروں کا سفر ہی ختم نہیں ہوتا
جن کے رتجگے ہی ختم نہیں ہو تے
جن کے خوابوں میں وہ نہیں آتے جو یسوع بن کر آکاش پر اُٹھالیے گئے
جو مائیں یا تو روتی ہیں یا ماتم کرتی ہیں
جن کے نصیب میں رونا اور انتظار آیا ہے
جن کا رونا اگر یروشلم سن لے توان بلوچ ماؤں کے پیر تھام لے
پر افسوس یہ سب رونا شال کی گلیوں میں ہو رہا ہے
شال کی گلیوں میں بس ماما قدیر نہیں
پر قدوس بزنجو بھی ہے
جس کا دل ماں کے دل جیسا نہیں
ان ماؤں کے پیروں،جوتوں،اور دھول کے نشاں شال کی گلیوں سے لیکر،کراچی کی سڑکوں تک پائے جاتے ہیں،دھرتی ان کے درد کی گواہ ہے،پر پھر بھی یہ مائیں خدا کی دنیا کو تہس نہس نہیں کر سکتیں
وہ مائیں جو محبت کا مندر تھیں اور اب یہ مائیں مقتل گاہ بن چکی ہیں
وہ مائیں جو محبت کا گیت تھیں اب درد کا نوحہ بن چکی ہیں
جب ایسی ماؤں کے گم شدہ بیٹوں کے اداس لاشے پہاڑوں کے دامنوں سے ملتے ہیں تو کم از کم ایک دن درد کے نام کریں اور روئیں ان ماؤں کے ساتھ جو ہو بہ ہو مریم جیسی ہیں
جن کے بیٹے یسوع جیسے ہیں
پر افسوس یہ گلیاں یروشلم کی گلیاں نہیں
یار کی گلیاں ہیں
درد کی گلیاں ہیں
نا تمام!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں