تمام صبحیں اُن کی، تمام شامیں اُن کی ۔ محمد خان داؤد

157

تمام صبحیں اُن کی، تمام شامیں اُن کی 

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کیا وہ بس وہ ایک دن کے مستحق ہیں؟سال کا پہلا دن یا سال کا آخری دن؟

کیا وہ بس ایسے ہیں کہ سال کی پہلی یا آخری شب ان کے نام سے منسوب کی جائے؟

یا بس آکاش پر نمودار ہوتا ماہ کی اک کاش ان سے منسوب کی جائے؟

وہ تو آپ ماہِ تمام ہیں!

آزادی کے آکاش کا ماہِ تمام

کیا وہ بھولی بسری یاد ہیں کہ جب سال کا آخری سورج ڈوب رہا ہو اور ہمیں وہ کسی بھٹکتی یاد کی طرح یاد آجائیں؟یا وہ ایسے ہیں کہ جب شہروں کے شور اور گمسان میں پرندوں کی چہچاہٹ ہو اور سال کا نیا سورج آنکھیں موندے اس دنیا میں آنے کو بے قرار ہو اور ہمیں وہ رات کے پچھلے پہروں میں دیکھے خوابوں کی طرح یا د آجائیں؟کیا وہ ایسے ہیں کہ جب ڈسمبر اپنی تمام تر رانائیوں اور یخ بستیوں کے ساتھ جا رہا ہو اور جنوری کسی محبوبہ کی بہانوں کی طرح پاس،پاس،اور پاس آ رہا ہو اور وہ ہمیں یاد آ رہے ہوں؟

اک دن،اک شب،اک ماہِ،اک شام،اک صبح، اک سورج ان سے منسوب کرنا عشق کی توہین ہے

اور وہ عاشق ہیں

ونی(عورت)کے عشق کی ہوائیں جب چلتی ہیں تو وہ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں

ویدوں میں لکھا ہے ”سب سے مقدس ہوائیں عشق کی ہیں،عشق بھی وہ جو ونی کا ہو اور جب کوئی ونی کے عشق سے سرشار ہوتا ہے تو وہ اس دھرتی پر سب سے زیا دہ مقدس ہوجاتا ہے“

پر جس پر دھرتی کے عشق کی ہوا ئیں چلتی ہوں،اور وہ دھرتی کے عشق میں سرشار ہو تو وہ کتنا مقدس ہوگا؟

یہ ویدوں کے سرجنھاروں سے رہ گیا ہے،یا جان بوجھ کر ان سرجنھاروں نے ایسی کویتائیں نہیں لکھیں

پھر بھی وہ عشق سے سرشار ہوئے،ونی (عورت)کے عشق میں نہیں

ونی کو تو وہ کب کی پیٹھ دے کر اک طرف ہو گئے۔وہ دھرتی کے عشق میں سر شار ہوئے اور آزادی ان کا گیت ٹھہری۔دھرتی کی مٹی کی تمام تر خوشبو ان کے بد ن میں بھرگئی،اور پھولوں نے اپنے تمام رنگ انہیں پیش کیے۔اب آکاش انہیں کوئی شاند کی اک کاش پیش نہیں کرتا،پر پورا ماہِ تمام ان کے پیروں میں ڈال دیتا ہے،پر وہ سمجھتے ہیں

جو دھرتی پر چلے وہ دھول اچھی

جو پیر دھرتی میں دھول آلود ہوئے وہ پیر اچھے

وہ اپنے پیروں سے اس چاند کی کاش کو ٹھوکر مارتے ہیں جو بس ہم انہیں ایک دن منسوب کرتے ہیں

وہ اس ایک دن پرموتتے بھی نہیں جو ہم ان کے نام کرتے ہیں۔وہ شام۔وہ صبح،اور وہ رات جو سال کے پہلے یا آخری دن ان کے حوالے سے یاد کی جائے وہ اس رات،شام،دن،صبح کو اپنے پیروں تلے روند دیتے ہیں۔جب سال کے تمام دن ان کے تمام راتیں ان کی تمام شامیں،تمام صبحیں ان کی تو ہم انہیں نئے سال کے اک رات کے کھول میں کیسے بند کر سکتے ہیں؟

وہی ماہ

وہی ماہِ تمام

وہ شب

وہی شبِ تمام

وہی دن

وہی دن تمام

وہ شام

وہی شامیں تمام

وہی صبح

وہی صبحیں تمام

ان کو سال کے پہلے،آخری دنوں سے مت جانو،انہیں ان کے مان سے جانو

وہ جو دھرتی کی بہار ہیں

وہ جودھرتی کا بیلنس ہیں،تم کیا سمجھتے ہو کہ دھرتی کے بار کو ان پہاڑوں نے برداشت کیا ہوا ہے؟

آدم سے لیکر اب تک دھرتی پر اتنا کچھ ہوا ہے کہ دھرتی کب کی اک طرف ڈہہ جا تی،جب معصوم بچیاں دن کے شروعاتی پہروں میں درد کا گیت بن جا تی ہیں اور اداس مائیں رات کے آخری پہروں میں دامن نوح پر پہنچ کر ایسے درد سے نوحہ گر ہو تی ہیں کہ فرشتے بھی اپنے کان بند کر دیں تو پہاڑ تو انہیں سن کر روئی کی ماند اُڑ جائیں تو دھرتی کا بوجھ کون برداشت کرے؟

پہاڑ تو بارِ گراں ہیں

وہ تو بارِ یاراں ہیں

تو ایسے بارِ یاراں کو بس اک دن میں یاد مت کرو

تم نے تو دھرتی کو اپنی راتیں اور دن دیے ہیں

وہ تو دھرتی کو اپنا جیون دان کر چکے ہیں

وہ جو خاموش شاعر ہیں

جن کے دیدار کو ہوائیں ترستی ہیں

وہ جو خوشبوؤں کی طرح پتھروں کے ساتھ پہاڑوں پر پھیل گئے

جن کے پیروں کی نازک تلوؤں کو لہو آلود پتھروں چومتے ہیں

وہ جو بارشوں میں بھیگ بھیگ کر رو تے ہیں

وہ جن کے آنسوؤں سے بارش گھنی برستی ہے

وہ جو اندر سے کومل باہر سے پتھر ہیں

وہ جو سسئی کے بھائی اور آپ مسافر ہیں

وہ جو آپ سسئی اور آپ پنہوں ہیں

وہ جو ان لکھا کتاب ہیں

وہ جو ان چُھی محبت ہیں

وہ جو محبت کا پہلا پہلا لمس ہیں

وہی بوسہ،وہ ہونٹ ہیں

وہی فراق،وہی وصل ہیں

جن کے ہاتھوں میں نہ محبت سے محبوباؤں کے سفید پستان آئے اور نہ گلابی ہونٹ

وہ جو ملن کے مزے سے نا آشنا ہی رہے

وہ جن کے کوئی بچے نہیں

وہ جو دھرتی کے بیٹے ہیں

وہ جن کی پہلی ماں دھرتی کے پہاڑ،دوسری ماں آزادی اور تیسری ماں دھرتی ہے

وہ جن کے لہو سے پہاڑوں کے دامنوں اور چوٹیوں پر سرخ پھول کھل آتے ہیں

وہ جو بارشوں جیسے

وہ جو مست صوفیوں جیسے

وہ جو لال لہو جیسے

وہ جو محبت کی صدا جیسے

وہ جو من مندر کے دئیے ہوں جیسے

جنہوں نے دھرتی کے اندھیرے کو دور کیا ہے

ان کے حوالے سال کا اک دن مت کرو

دھرتی کی

تمام شامیں اُن کی،تمام صبحیں اُن کی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں