پاکستانی حکام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ بلوچستان کی جدوجہد آزادی کو کیسے کاؤنٹر کریں۔ اس لیے وہ روزانہ اپنی پالیسیاں بدل رہے ہیں۔ توقع کے برعکس افغانستان میں رجیم چینج سے پاکستان کو فائدہ نہیں پہنچا۔ بلوچوں کو اپنے دشمن بڑھانے کی بجائے پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے لیے منظم اور متحد جدوجہد کرنی ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنان کے ساتھ ’ جھدکارانی پتر‘ (کارکنان کی مجلس) کے تحت ہونے والے ماہانہ پروگرام میں پارٹی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ اور سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے کیا۔
دو گھنٹے کے اس پروگرام میں پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ نے پارٹی کے تربیتی پروگرام کے حوالے سے کارکنان کو بتایا کہ پارٹی کے متعلقہ ادارے نے یونٹ اور مرکزی سطح پر پارٹی کارکنان کے لیے تربیت و تعلیم کی منصوبہ بندی کی ہے۔ نصاب سازی کا کام شروع کیا گیا ہے اور ابتدائی پانچ کتابیں تیار ہوچکی ہیں جن میں تین کتابیں شائع کی گئی ہیں جبکہ دیگر کتابیں جلد شائع کی جائیں گی۔
انھوں نے کہا کارکنان کی کیپسٹی بلڈنگ اس پروگرام کے آئینی ذمہ دار کی حیثیت سے میری ترجیحات میں شامل ہے۔
پروگرام کے آخری حصے میں سوال و جواب اور تنقید کے سیشن میں کارکنان نے تنظیمی امور اور پارٹی پیشرفت کے لیے اپنی تجاویز دیں اور سوالات کیے، جن کے جوابات پارٹی کے چیئرمین، سیکریٹری جنرل، وائس چیئرمین اور انفارمیشن سیکریٹری نے دیئے۔
پروگرام میں کارکنان پر زور دیا گیا کہ وہ پارٹی کی تشہیر میں متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں اور سوشل میڈیا میں پارٹی کے موقف کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔
چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے علاقائی اور قومی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اور افغانستان کے رشتے تاریخی ہیں۔ صدیوں سے جب بھی کسی افغان پر مشکل وقت آیا تو اس نے بلوچستان کا رخ کیا اور اگر کسی بلوچ پر مصیبت آئی تو اس نے افغانستان میں پناہ لی۔ ہمارا یہ رشتہ تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ خیال کیا جاتا تھا پاکستان کی مداخلت سے افغانستان میں رجیم چینج کے ذریعے وہاں بلوچ مخالف حکومت آئے گی لیکن افغانستان میں رجیم چینج پاکستان کے حق میں نہیں جا رہا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں۔
انھوں نے کہا 2014 کے سیشن میں بی این ایم کے مرکزی کونسلروں نے یہ فیصلہ کیا کہ بی این ایم اپنی تمام تر طاقت پاکستان کے قبضے کے خلاف بلوچستان کی آزادی کے لیے صرف کرے گی اور دیگر محاذ نہیں کھولے گی۔ ہمیں اپنے دشمن نہیں بڑھانے ہیں۔ دو قدم آگے بڑھنے کے لیے زندہ رہنا ضروری ہے۔ بلوچ مہاجرین سخت حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن ان کے حوصلے مضبوط ہیں۔
ان کا کہنا تھا ہم منظم تھے اس لیے پاکستان نے ہمارے خلاف زیادہ طاقت اور مظالم کا استعمال کیا۔ دشمن کو سمجھ نہیں آرہی بلوچ اور بلوچستان سے کیسے نمٹا جائے۔
انھوں نے کارکنان کو پارٹی کی بلوچ آزادی پسند جماعتوں کے ساتھ اتحاد و اشتراک عمل کی کوششوں کے بارے میں بتایا کہ ماضی میں بھی بلوچ آزادی پسند قوتوں کے درمیان اتحاد و اشتراک عمل کے لیے کوشش ہوتی رہی ہیں لیکن اب پارٹی کی سطح پر ایک کمیٹی بنائی گئی ہے اور اس کوشش کو مربوط کیا گیا ہے تاکہ اسے بار آور بنایا جاسکے۔ جو بھی تنظیم ہمارے موقف کے ساتھ ہم سے اشتراک عمل چاہتی ہے ہم انھیں خوش آمدید کہیں گے۔ اس سلسلے میں کئی تنظیموں سے بات ہو رہی ہے اور بات آگے بڑھ رہی ہے۔
بی این ایم کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے کہا افغانستان بلوچ کا اچھا ہمسایہ رہا ہے۔ بھٹو کے زمانے سے پاکستان افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس مداخلت کو چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جس سے افغانستان تباہ ہوچکا ہے۔ جب پاکستان بنایا گیا تب ہی پاکستان کے حکمرانوں کو یہ اندازہ ہوا کہ بلوچ اور پشتون پاکستان کے قبضے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پشتون قوم کو قابو کرنے کے لیے وہاں مذہبی تنظیموں کو استعمال کیا گیا جبکہ بلوچستان پر براہ راست پاکستانی فوج کی حکمرانی قائم کی گئی۔ یہ پاکستان کی خواہش تھی کہ افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنائے۔ حال ہی میں افغانستان میں رجیم چینج کے بعد ان کی خواہش تھی کہ بلوچوں کے لیے زمین تنگ کی جائے لیکن موجودہ افغان حکومت کا بھی ایک قوم دوستانہ رنگ ہے انھیں پاکستان کے مفادات سے زیادہ افغان مفادات عزیز ہیں۔
انھوں نے کہا اس دفعہ بلوچ تحریک نے تسلسل کے ساتھ 20 سال مکمل کیے ہیں جسے ختم کرنے کے لیے پاکستان مظالم کے تمام رکارڈ توڑ رہا ہے۔ بی ایس او پر اعلانیہ اور بی این ایم پر غیر اعلانیہ پابندی لگائی گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ جبری لاپتہ ہیں اور ہزاروں قتل کیے گئے لیکن قومی اداروں کی وجہ سے یہ تحریک جاری ہے۔ اب یہ تحریک ایک فرد کی تحریک نہیں بلکہ ادارہ جاتی بنیادوں پر منظم ہے۔ فرد مر سکتے ہیں، تھک سکتے ہیں، سودے بازی کرسکتے ہیں، اپنے موقف سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں لیکن ادارے اپنے تسلسل کو برقرار رکھتے ہیں۔ موجودہ تحریک آزادی کے تسلسل کا کریڈٹ پارٹی اداروں کا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا ہم نے اس طویل عرصے میں حکمت عملیاں تبدیل کی ہیں لیکن اپنے پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں کی مگر ہماری جدوجہد نے پاکستان کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیاں تبدیل کرے۔ پاکستان کے حکمران اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان ان پالیسیوں کے ساتھ اب آگے نہیں چل سکتا۔ پاکستان کے حکمران اور فوجی افسران نے پہلے جبری گمشدگیوں سے انکار کیا تھا لیکن اب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست پاکستان کے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے بلوچستان میں لوگوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔