بلوچستان کو عملاً ایک جیل و اذیت گاہ میں تبدیل کیا گیا ہے – ماما قدیر بلوچ

168

بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4924 دن کراچی پریس کلب کے سامنے جاری رہا۔

اس موقع پر ایچ آر سی پی سندھ چپٹر کے وائس چیئرمین قاضی خضر حیات، بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ڈپٹی آرگنائزر عبدالوہاب بلوچ، ایڈوکیٹ عمران شیخ بلوج لائر فورم کے فتح عمر بلوچ ایڈووکیٹ، ملیر سے یاسر بلوچ اور دیگر نے اظہار یکجتی کیا۔

تنظیم کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچوں کی غلامی، جدوجہد، نسل کشی کی داستان، بلوچ دھرتی پہ ناحق بہنے والے خون کی ہولی بہت غمزدہ کرنے اور کربناک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو عملاً ایک جیل اور اذیت گاہ میں تبدیل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درد کی ان داستانوں کو لکھنے کے لئے ایک طویل وقت اور سخت دل چاہیے تاکہ داستان غم و کرب کو لکھتے ہوئے آنکھیں نم نہ ہوں اور ڈھرکنیں ساتھ نہ چھوڑ دیں اسے بلوچستان کی خوش قسمتی کہیں یا بلوچ کی بدنصیبی کہ پیاروں کی بازیابی کی طویل داستان، جدوجہد میں کوئی ایسا دن بمشکل ملے گا جس میں بالادست قوتوں کے ہاتھوں کوئی بلوچ شہید نہیں ہوا ہو، چادر وچاردیواری کی پامالی نہ ہوئی ہو، جبری گمشدہ بلوچوں کی فہرست میں اضافہ نہ ہوا ہو، بلوچوں کے خون کی ہولی نہ کھیلی گئی ہو اور ظلم کی داستان میں مظالم کم ہوئے ہو۔

انکا کہنا تھا کہ قومی جدوجہد کی راہ میں ہزاروں نوجوان ، بزرگ ، ماؤں بہنوں اور معصوم بچوں نے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی ہے اور قوم کو بیدار کرنے کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے قومی فرض کو نبھایا ہے ، راہ حق کے شہیدوں میں ہزاروں بلوچوں کے نام شامل ہیں۔