بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بانک کریمہ کی دوسری برسی کے موقعے پر کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جسمیں کثیر تعداد میں خواتین اور عام عوام نے شرکت کی۔
سیمینار سے بلوچ دانشور ماما تالپور، خرم علی، شاہ زیب ایڈوکیٹ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ذین گل، تاج بلوچ، اے آر داد، ڈاکٹر منظوربلوچ، شاری بلوچ، اور خان زمان کاکڑ نے بانک کریمہ کی سیاسی جدوجہد، ان کی قربانیوں اور شہادت پر گفتگو کی اور انہیں ان کیلازوال قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کی۔
مقررین نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ تاریخ میں ایک ایسی کردار بن چکی ہیں جنہیں قوم نے لمہ یعنی ماںکا درجہ دیا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ کریمہ بلوچ عوام کے اندر کتنی اہمیت اور حیثیت رکھتی ہیں۔ کریمہ نے اپنی پوری زندگیبلوچ قوم اور اس کیلئے جدوجہد میں گزاری ہے انہوں نے زندگی کا ایک بھی لمحہ اپنی ذات کیلئے وقف نہیں کیں وہ ایک ایسی کردارہیں جو تاریخ میں صدیوں تک یاد رکھی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ کریمہ کے بغیر بلوچ جدوجہد نامکمل نظر آتی ہے انہوں نے بلوچ عوام خاص کر نوجوانوں اور خواتین کو بلوچ سماجمیں متحرک کرنے کیلئے ایک اہم کردار ادا کی اور اپنی دن رات انہیں منظم کرنے اور راہ راست پر لانے کیلئے خوشاں رہی انہوں نےبلوچ خواتین کو سیاست میں متحرک کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ گھر گھر جاکر بلوچ والدین کو اس بات پر کنونس کرتی تھیںکہ خواتین کیلئے سیاست ایک اہم اور اہمیت کی حامل پلیٹ فارم ہے جہاں سے وہ آگے جاکر اپنے اور اپنی قوم کیلئے کچھ کر سکتےہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے مظلوم عوام کیلئے آواز اٹھایا وہ مظلوم عوام کے ترجمان کی حیثیت رکھتی تھیں۔
مقررین نے بانک کریمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بانک نے اپنی سیاسی زندگی میں سخت مشکلات کا سامنا کیا ان کےکئی دوست لاپتہ اور شہید کیے گئے انہیں جدوجہد سے دور رکھنے کیلئے ان کے خلاف سخت پالیسیاں اپنائی گئیں ان کے خاندان کےافراد کو محض بانک کریمہ کی سیاسی جدوجہد کی پاداش میں نقصان پہنچایا گیا۔ جب وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کیلئے کینیڈاچلی گئیں تو وہاں بھی انہیں چھین سے رہنے نہیں دیا گیا بلکہ وہاں تک بھی ان کا پیچھا کیا گیا انہیں ہراساں کرنے، دھمکی اورڈرانے کی ہر حد پار کر دی گئیں مگر وہ ایک ایسی بہادر انقلابی کردار تھیں جنہوں نے ہر اس مشکل حالات کا مقابلہ کیا اور کہیں پربھی ان کے پاؤں میں لرزش نہیں آئی۔
مقررین نے کہا کک کریمہ بلوچ نے عوام کو ہر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک کیا اور انہیں لڑنا اور مزاحمت کرنا سیکھایا،بلوچستان کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں کریمہ نے سفر کرکے وہاں عوام کو آگاہی دینے اور سیاسی جدوجہد میں متحرک کرنے کیلئےکام نہیں کیا۔ جب بلوچستان میں سیاست جرم قرار دی جا چکی تھیں اور کریمہ کے دوستوں کو دھڑا دھڑ شہید کیا جا رہا تھا ان کیمسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی تھیں تو ایسے حالات میں بھی وہ پیچھے نہیں ہٹی اور ان سخت حالات کا بہادری سے مقابلہ کیااور یہ ثابت کیا کہ کسی بھی تحریک میں ایک سیاسی کارکن حالات کی سختیوں کا مقابلہ کرکے ہی رہبری اور جہد مسلسل کی مثالبن سکتی ہے۔ کریمہ نے اس مقام تک پہنچنے کیلئے وہ قربانیوں دی ہیں جن کا آج سے بیس سال پیش بلوچ خواتین کیلئے تصور بھینہیں کیابجا سکتا تھا مگر انہوں نے ثابت کیا کہ بلوچ خواتین کتنی بہادر اور باہمت ہیں جنہیں ظالم حکمرانوں نے ایک منصوبے کےتحت گھروں میں قید و بند کیا ہے۔
مقررین نے پروگرام کے اختتام پر لمہ بانک کریمہ کو ان کی بہادری، جرات، سیاسی جدوجہد میں سختیوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنےپر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بانک کریمہ صرف بلوچ نہیں بلکہ اس خطے کی سب سے مضبوط خواتین کردار بن چکی ہیں انکو مشعل راہ بنا کر اس خطے کے خواتین اپنی لئے آزادی اور امن تلاش کر سکتی ہیں۔