بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ گوادر کے مقامی باشندوں نے اپنے بنیادی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا اور یہ بنیادی حقوق ہر ایک عہدِ حکومت کو فراہم کرنے ہیں اور یہ لوگوں کے بنیادی حقوق میں شمار ہوتے ہیں۔ جن حقوق کی بات کی گئی ان میں پانی، بجلی اور معاش ہے کہ جس کی وجہ سے آج تین مہینے کے قریب ہے کہ یہ مطالبات لئے حکومت کے سامنے موجود ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت ان مسائل کو سنجیدگی سے لے اور ان کے حل کے لئے آگے آئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں کے جینے کے حقوق میں شمار ہوتے ہیں اور لوگوں کو زندگی گزارنے کا پورا حق ہے لیکن اس طرح سے حقوق کی پامالی کرکے گوادر کے مقامی لوگوں سے ان کے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ وہ اپنی معاش کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تاکہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں تاکہ دو وقت میں ان کے بچے بھوک سے بچیں لیکن آج ان کے اس حق سے ان کو شدید محروم کیا جا رہا ہے اور ان کے لئے زندگی اجیرن بنائی جا رہی ہے۔لوگ کئی دنوں سے شاہراہوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں، آخر کیوں فرعونی طاقت کے نشے میں چور حکمران اور انتظامیہ نے بات چیت و مذاکرات سے مسائل کو حل کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر لوگوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ آج کے دن تک متعدد تعداد میں مقامی لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں گھر والوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ہے، جس میں اس وقت گوادر کے ایک مؤثر آواز محترم جناب حسین واڈیلہ صاحب بھی شامل ہیں، اسی طرح سے متعدد تعداد میں عورتوں کو مارا پیٹا گیا وہ لوگ جو دھرنے میں بیٹھے تھے پولیس نے ان کے گھروں میں چھاپے مارے اور گھروں کی عورتوں کا دھمکایا گیا اور مارا پیٹا گیا، غرض کہ یہ چادر و چار دیواری کی پامالی ہے جو کہ پولیس نے کی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت اگر مسائل کو حل نہیں کر سکتا تو کم از کم پولیس کو لگام دے اور پولیس کو اپنے قابو میں رکھے۔ ان تمام تر واقعات میں پولیس نے جو ناجائز حربے استعمال کئے ہیں وہ ناقابل فراموش و ناقابل برداشت ہیں، پولیس نے نوجوان کو بری طرح سے مارا پیٹا ان کو گھسیٹا، بزرگوں کا مارا ان کے عمروں کا خیال تک نہ کیا اور وہ بزرگ جو اپنے حقوق کی بات کر رہے تھے وہ حقوق جو انسانی حقوق میں شمار ہوتے ہیں، عورتوں اور جوان لڑکیوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کو گھسیٹا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ حق دو تحریک کے رہنماؤں کے گھروں میں جاکر ان کے گھر کی عورتوں کو مارا پیٹا گیا ان کو دھمکایا گیا اور گھر کی چادر چار دیواری کو پوری طرح سے پامال کیا گیا۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اب ہمارے پاس اور باقی کیا رہ گیا ہے کہ ہمارے گھروں میں ہمارے گھر کی عورتیں محفوظ نہیں ان کی عزتیں محفوظ نہیں تو اب رہ کیا گیا ہے کہ جس کی ہم بات کریں یہ بات تو اس ظلم و جبر کی آخری انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ آج تک بھی گوادر کے مختلف علاقوں میں حالات کشیدہ رہے لیکن پولیس نے اپنے فائرنگ کو جاری رکھا اور یہ صرف اور صرف گوادر کے حالات کو کشیدہ کرنے کا واضع راستہ ہے بجز اس کے اور کچھ نہیں۔ گوادر جس کو پاکستان کی معیشت کہا جا رہا ہے اور گوادر کے مقامی لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور وہاں کے لوگ معاشی حالات سے لاچار و پریشان ہوکر جب حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ کیوں یہ معیشت کا حصہ گوادر کے مقامی لوگوں کے حصے میں نہیں آ رہا؟ کیوں گوادر کے مقامی لوگ پانی کی ایک بوند کے لئے ترس رہے ہیں؟ یہ سب اپنے آپ میں سوال کے ساتھ کئی درد و رنج لئے ہوئے ہیں۔ مسائل کو حل کرنے کی بات تو بہت دور اب تو گوادر میں دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے اور لوگوں مقامی لوگوں کی گرفتاریاں مزید تیز کی گئی ہیں، کیا یہ سب گوادر کی ترقی کے پنہاں راز ہیں جو ابھی تک آنکھوں سے اوجھل تھے؟
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم بلوچستان حکومت خصوصی طور پر گوادر انتظامیہ اور گوادر کے MPA سے مطالبہ کرتے ہیں اور تمام سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان مقامی لوگوں کی باتوں کو سنیں اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ وگرنہ ان مقامی لوگوں کے بنیادی حقوق نہ دئے گئے اور ان کے مسائل حل نہ کئے گئے تو اس عمل کے برعکس بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔