کہاں جاتے ہیں 95٪ نمبر لینے والے؟
تحریر: طاہر صادق
دی بلوچستان پوسٹ
تعلیم جو انسان میں شعور اور آگاہی پیدا کرتی ہے، سوچنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔ اچھے اور برے میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ خود کو پہچاننا سکھاتی ہے، سوال کیسے اٹھانا ہے، لوگوں کے ساتھ کیسے بات کرنی ہے، زندگی جینے کا ہنر سکھاتی ہے، ہمارے کردار میں نکھار لاتی ہے، دوسروں کے لیے جینا سکھاتی ہے، معاشرے کے دیگر لوگوں سے میل جول سکھاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ہر بار ہمیں اخباروں، رسالوں اور دوسرے ذرائع سے یہ سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ فلاں اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے اتنے بچوں نے 90٪ نمبر یا A+ گریڈ حاصل کیا ہے۔ ہمارا یہاں پر یہ مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ اتنے نمبر لینے والے امیدوار آخر جاتے کہاں ہیں؟
اگر ہم میرٹ لسٹ کی بات کریں تو وہ ٪90 سے شروع ہو کر ٪85 پر جا کر ٹہرتی ہے۔ بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں شرط رکھی جاتی ہے کہ اس سے کم گریڈ والا کوئی بھی امیدوار اپلائی نہ کرے۔ سوشل سائنسز میں جا کے تھوڑا بہت میرٹ کم ہوتا ہے۔ اگر آپ کے 85٪ مارکس نہیں ہیں تو سمجھیں سائنسز میں آپ کا داخلہ ناممکن۔
سو، ہمارے معاشرے میں ہر سال ایسے بچے پیدا ہو رہے ہیں جو 85٪ نمبر لے لیتے ہیں۔ اس بنا پر تو ہمارا معاشرہ سائنٹسٹ ،فلاسفر ، ڈاکٹروں انجینئروں اور وکیلوں سے بھر جانا چاہیے تھا، تو پھر کیا وجہ ہے کہ 85٪ نمبر لینے والے امیدوار زندگی میں نمایاں مقام حاصل نہیں کر پاتے؟
یہ امر باعثِ تشکیک ہے ! ہر بچہ فخریہ انداز سے کہتا ہے کہ ہم نے اتنا اسکور کیا ہے. اور والدیں بھی بڑے خوش ہوتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں کہ ہمارے بچے نے ٹاپ کیا ہےاور کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے ٹیلنٹڈ بچے پیدا کئے ہیں۔ یہ خبریں اکثر ہمیں سننے کو ملتی ہیں لیکن بعد میں یہ جاتے کہاں ہیں۔ کیا ان میں سے کوئی سائنٹسٹ ،یا آئی ٹی ایکسپرٹ یا سوشل سائنسز میں نوبل پرائز لے سکا ہے یا کبھی لے سکے گا ؟
ہمارا تمام تعلیمی نظام صرف ایک ہی چیز پر کھڑا ہے اور وہ ہے یاد داشت کا امتحان۔ ہمیں رٹا لگانے کا عادی بنا دیا گیا ہے اور ہماری صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے بجائے ہماری صلاحیتوں کو ختم کیا جا رہا ہے، ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ہمیں well educated نہیں بلکہ well trained بنایا جا رہا ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ ہمارے اکثر طلبا صبح کو اسکول/کالج/ یا یونیورسٹی جاتے ہیں اور دو پہر کو روم/ گھر میں آکر کتابیں پھینک دیتے ہیں، اور پھر اگلی صبح کتابوں کو دوبارہ لے کر اسکول جاتے۔ جب امتحان میں دو دن رہتے ہیں تو پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ٹیچروں کے دیے گئے نوٹس کا رٹا لگا کے پیپر دیتے ہیں اور یہی لوگ ٹاپ بھی کرتے ہیں۔ اور ہمارے اکثر اساتذہ کرام ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ نوٹس دیے گئے ہیں ان کی مدد سے ہی تیاری کرنی ہے۔ کوئی اپنے ورڈنگ میں اگر لکھے تو اسکو فیل یا رعایتی پاس کر دیتے ہیں۔ یعنی طلبا کی صلاحیتوں کو ابھرنے نہیں دیتے۔ ایسے میں ہمارے اداروں میں تعلیم یافتہ کم اور well trained زیادہ پیدا کئے جاتے ہیں۔
ہمارے یہاں تعلیم کو ایک کاروبار بنا لیا گیا ہے. آج کل طلبا کی سوچنے کی صلاحیت کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہمیں سیاست سے دور کیا جا رہا ہے۔ انٹری ٹیسٹ، ٹیوشن اور سمسٹر سسٹم نے طلبا کو باقی سرگرمیوں سے دور کر دیا ہے اور رٹا لگانے کو تعلیم قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسے ہی ابھی رپورٹ آئی ہے کہ یورپ کے نسبت ہمارا تعلیمی نظام 60 سال پیچھے ہے۔
ایسے میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ خود کو تبدیل کریں اور نظام کو بدلنے کی کوشش کریں ۔ خود اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں اور سوال کرنا سیکھیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں