ڈیرہ جات میں حریت پسندی (حصہ چہارم) ۔ واھگ

342

ڈیرہ جات میں حریت پسندی (حصہ چہارم)

تحریر: واھگ

دی بلوچستان پوسٹ

کوڑا خان قیصرانی کا تعاقب کیا گیا اور بلآخر اُنہیں شمتالہ کے مقام پر گھیر لیا گیا اور یہاں کوڑا خان قیصرانی کے ساتھ طویل مذاکرات ہوئے اور مذاکرات میں بلوچوں کے چند شرائط پر یقیں دہانی کے بعد لیفٹیننٹ گرے کو رہا کر دیا گیا۔ انگریز فوج نے وقتی طور پر شرائط قبول کر لئے تھے اور کوڑا خان قیصرانی کو ہر ممکن تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لیکن دشمن کی یقین دہانی پر بھروسہ کرنا بھی بے وقوفی کے زمرے میں آتا ہے جس کا بلوچ قوم ہر دور میں اپنے سادہ لوح مزاج کی وجہ سے شکار رہا ہے۔

انگریز سرکار نے اس واقعہ کے بعد مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ کوڑا خان قیصرانی کو گرفتار کر لیا جائے گا اور اُنہیں لیفٹیننٹ گرے کو گرفتار کرنے کے عمل کی سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ یہاں رہنے والے باقی بلوچ اور تمن دار اس طرح کی باغیانہ سرگرمیوں میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے باز رہیں۔

کوڑا خان قیصرانی کو گرفتار کرنے کے لئے برٹش قبضہ گیر کی طرف سے ایک رجمنٹ پیادہ فوج کپتان ایف ٹی این کی کمان میں روانہ ہو چکی تھی اور دوسری جانب ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر سر روبرٹ گرووز سنڈیمن جو اس دورانیہ میں چھٹی پر تھے اُنہیں اطلاع ملنے کے بعد وہ ایک فوجی پلٹن کے ساتھ فوراً قیصرانی قبیلے کے صدر مقام پر پُہنچے تاکہ کوڑا خان قیصرانی کو گرفتار کر سکے۔

کوڑا خان قیصرانی ایک دانشور تھے اور انگریز سرکار کے مکاریوں سے بخوبی واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دشمن کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس لئے وہ پہلے سے محتاط ہو چکے تھے کیونکہ انگریزوں کی مکاریوں اور منافقت سے اچھی طرح واقف تھے انگریزوں فوج کے آنے سے پہلے وہ پناہ لینے بلوچ گلزمین کے پہاڑوں کی طرف چلے گئے ۔ انگریز افواج نے محمود خان کھتران کو زمہ داریاں تقویض کیں کہ وہ ہمسایہ اور انگریز نواز سرداروں کو ترغیب دیں کہ وہ کوڑا خان قیصرانی کو پناہ نہ دیں۔

ڈیرہ غازی خان کے سرداروں اور تمن داروں کو جنہوں نے کوڑا خان قیصرانی کی گرفتاری میں امداد و تعاون کیا انہیں خلعت دی گئی۔ انگریز فوج کے اِن سیاسی اقدامات پر تقریباً پندرہ ہزار روپے خرچ ہوئے نیز ماقبل بیان کردہ انعام کی رقم دس ہزار روپے باغیوں اور قیصرانی سے لی گئی ۔

کوڑا خان قیصرانی کو گرفتار کرنے کے لئے نتکانی، کھوسہ ، گورچانی ، لنڈ، لغاری اور بزادار کے سرداروں کا ساتھ تھا۔ نتکانی سردار نے اپنے قبیلے کی طرف سے پچاس آدمی بھیجے، گورچانی اور کھوسہ سر دار نے بھی پچاس پچاس افراد کا لشکر انگریز کی مدد کے لئے روانہ کیا۔ لغاری قبیلے کے سردار نے سات سو ،لنڈ قبیلے کے چار سو اور بزدار قبیلے کے سردار نے کوڑا خان قیصرانی کو گرفتار کرنے لئے انگریز فوج کی مدد کے لئے ایک ہزار آدمی افراد کا لشکر روانہ کیا تھا۔

انگریز فوج کے جانب سے ڈیرہ غازی خان کے اِن قبائل میں نقد رقم تقسیم کی گئی جن میں بزدار قبیلے کو پچیس سوروپے، لغاری سردار کو دو ہزار روپے ،لنڈ کو ایک ہزار ،کھوسہ قبیلے کو سات سوپچاس، گورچانی کو تین سو اور نتکانی قبیلے کو پانچ سو روپے بطور انعام دیے گئے۔

ان قبائل سے کہا گیا کہ اگر کسی نے بھی کوڑا خان قیصرانی کو گرفتار کرنے میں انگریزوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا تو ان کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے گی اور کھڑی فصلیں بطور جرمانہ بحق سرکار ضبط ہوں گے اور پہاڑوں اور شہروں میں رہنے والے تمن دار اور وڈیروں کو ملک بدر کیا جائے گا اور پہاڑی علاقوں کی ناکہ بندی کی جائے گی۔

سردار جمال خان لغاری نے انگریزوں کے سامنے اپنے وقار و عزت و آبرو بڑھانے کے لئے خیر شاہ اور مہر شاہ کے مرید نہنگ اور جانے کو اپنے علاقے سے کوڑا خان قیصرانی کا سر کاٹ کر لینے کے لئے روانہ کیا اور محمود خان کیتھران بھی انگریزوں سے عزت بڑھانے کوششوں میں مگن رہے تھے۔

بلآخر سارے قبائل نے مل کر انگریز فوج کی خوشنودی کے لئے کوڑا خان قیصرانی کو گرفتار کرکے انگریزوں کے حوالے کر دیا جس کے بعد کوڑا خان قیصرانی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور ان کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کوڑا خان قیصرانی کی تمام جائیدادوں کو ضبط کر دیا گیا اور ان کی زمینیں انگریز سرکار نے اپنے باجگزار سرداروں میں بانٹ دیے جہاں آج بھی سید آباد ہیں اور وہ بستی شاہ والی کے نام سے مشہور ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں