پاکستانی پروپیگنڈا اور بلوچ ۔ سُہرنگ بلوچ

602

پاکستانی پروپیگنڈا اور بلوچ 

تحریر سُہرنگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

انسان پہلے دن سے اپنی بقا کی جنگ لڑتا آرہا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے طریقے اور تکنیک بدلتے رہے ہیں، وہ چاہے بھوک سے نمٹنے کیلئے انسان کا جانوروں کو مارنا ہو یا اپنی زندگی بچانے کیلئے دوسرے انسان یا خطروں کا سامنا کرنا ہو، بندے نے ہمیشہ جنگ کا سہارا لیا ہے۔ اسی مقصد کیلئے دنیا میں مُہلک سے مُہلک ترین ہتھیاربنائے گئے ہیں۔ پتھر کے زمانے سے لے کر اب تک انسان کے ہتھیار زیادہ سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں۔شروع میں جنگیں تلوار، نیزہ اور ڈھال سے لڑی جاتی تھی، ان جنگوں میں سپاہیوں کی سواری اور جنگی سازو سامان لے جانے کیلئے جانوروں کا بھی استعمال ہوتا تھا جیسے گھوڑا یا ہاتھی۔ اورپھر انسان نے ایجاد کیا بارودجو جنگوں میں سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوا ہے۔ اب انسان پہنچا ہے نیوکلیئرہتھیارپر جو اتنا ہولناک ہے کہ ایک شہر کو چند لمحوں میں صفائے ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ ان جنگوں کے ساتھ ساتھ انسان غیر مسلح جنگوں کی طرف بھی خوب بڑھ چکا ہے جسے ہم عام زبان میں پروپیگنڈا کہتے ہیں۔ 

پروپگنڈا ایک طرح کی کلامی یا زبانی لڑائی ہوتی ہے۔ جس میں اپنے مخالف کے بارے جھوٹ اور بے بنیاد باتیں پھیلا کر ایک بیانیہ بنایا جاتا ہے، اور اگر بات کریں قومی تحریکوں کا تو پروپگنڈا ان تحریکوں کو کاونٹر کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ 

آپ نے یہ ضرور سنا ہوگا کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، بنیادی طورپر میڈیا ایک ملک میں سرکار اور عوام کے درمیان پل کا کام کرتا ہے، لوگ اپنے مسائل میڈیا کے ذریعے اعلیٰ حکام تک پہنچاتے ہیں اور میڈیا ہی وہ طاقت ہے جو ریاست کو اپنے کام کرنے پر مجبور کرسکتا ہے اور ریاست اگر کسی چیز سے خوفزدہ ہوتی ہے تو وہ میڈیا ہے، لیکن بہت سے ممالک میں میڈیا کی یہ تعریف فٹ نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہاں میڈیا آزاد نہیں ہے۔ میڈیا کہ آزاد نہ ہونے کا مطلب کہ میڈیا ان مسائل پر بات نہیں کرسکتا ہے جو ریاست کہ حق میں نہ ہوں یا ریاست جو عوام کے ساتھ سلوک کرتا ہے تو میڈیا خاموش رہتا ہے اوراس کہ ساتھ ساتھ ریاستی بیانیہ اور منفی پروپگنڈا کو لوگوں تک پہنچاتا ہے اور عوام کے ہی خلاف بات کرنے لگتا ہے۔

 چونکہ پروپگنڈا کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا یا public opinion کو بدلنے کا ہوتا ہے اسی لئے مین مسٹریم میڈیا (اور اب سوشل میڈیا)اس میں سب سے زیادہ موثر آلہ ہوتے ہیں۔ دور حاضر میں میڈیا ایک بہت بڑا طاقت ہے، میڈیا میں اتنا طاقت ہے کہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا سکتا ہے۔ کسی بھی جھوٹ کو بہت آسانی سے سچ بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ 

ہٹلر کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے اپنے نظریات کو لوگوں تک پہنچانے کیلئے سب سے زیادہ میڈیا اور فلم انڈسٹری کا استعمال کیا۔ دنیا کے سب سے بڑے نیوز نیٹ ورکس میں سے ایک The New York Times پر بے بنیاد پروپیگنڈا کے کئی الزام لگتے آئے ہیں۔ 2003 میں امریکہ نے عراق پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ وہاں کمیکل ہتھیار ہیں جو دنیا کی امن کیلئے خطرہ ہیں تو نیو یورک ٹائمز نے CIA کی اس پروپیگنڈے کو لوگوں تک پہنچانے میں مدد کی اور امریکی حملے کو جائز قرار دیا، جس کا اعتراف بعد میں انہوں نے خود کیا۔ یہودیوں کے خلاف نازی مظالم کے دوران نیویورک ٹائمز کے روئیے پر صحافی Laurel Leff نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام Buried by the Times ہے، اس کتاب میں نیویورک ٹائمز پر تنقید کی گئی ہے کہ اس نے یہودوی نسل کشی کے خبروں کو اخبار کے آخری صفات میں دفن کردیا ہے جہاں زیادرتر صابن یا جوتے پالش کے اشتہار ہوتے ہیں۔ اس کتاب کو American Journalism Historians Association. نے میڈیا تاریخ کی بہترین کتاب قرار دیا ہے۔

سوشل میڈیا بھی اس جدید دور میں مین سٹریم سے زیادہ طاقتور بن گیا ہے کیونکہ اس نے عام عوام کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی بات دنیا تک آسانی سے پہنچا سکے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پروپیگنڈا کرنے یا جھوٹ اور فیک نیوز پھیلانے کا بہت ہی آسان ذریعہ ہے،سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہزاروں کی تعداد میں فیک اکاونٹس ہیں جن کو Bots کہا جاتا ہے۔ یہ اکاونٹس سوفٹ وئیرز کی مدد سے چلائے جاتے ہیں جن کو چلانے کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے۔ یہ ایک خاص نظریہ یا بیانیہ کو لوگوں میں مقبول بناتے ہیں۔ اگر ہم مثال دیں ٹویٹر کی تو ٹویٹر خود کہتا ہے کہ اس کے ٖفلیٹ فارم کو روزانہ 237.8 ملین لوگ استعمال کرتے ہیں اور ان میں 5% بوٹس یا فیک اکاونٹس ہوتے ہیں۔ ایک غیرجانبدارنہ ریسرچ کے مطابق ٹویٹر پر13% سے% 15 bots اکاونٹس ہیں۔ یہ اکاونٹس زیادہ تر ریاستی اداروں کے ہوتے ہیں یا پھر سیاسی پارٹیوں کے۔ پاکستان میں عمران خان کی پارٹی ”پاکستان تحریک انصاف“ کا سوشل میڈیا ونگ باقی پارٹیوں سے زیادہ مضبوط ہے اسی لئے عمران کا بیانیہ بہت جلد لوگوں میں مقبول ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کے خالف طرح طرح کے پروپگنڈا کرتے ہیں اور لوگ اس پروپگنڈے کو اکثر سچ مان لیتے ہیں۔

اگر بات کریں پاکستان اور اس کی میڈیا کی تو وہ شروع ہی سے ریاستی بربریت اور عوام مخالف پالیسیوں پر خاموش رہا ہے اور الٹا ریاست کی جبر کو Justify بھی کیا ہے، وہ چاہیے ریاست پاکستان کا بنگالیوں کے خلاف کریک ڈاون ہو یابلوچوں کے نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار ہو میڈیا ہمیشہ خاموش رہا ہے۔ 

پاکستانی ریاست نے بھی بلوچ اور بلوچ تحریک کو کاونٹر کرنے کیلئے پروپگنڈے کا بہت استعمال کیا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بلوچ ایک سیکولر قوم ہے اور اپنی اعلیٰ سماجی اقتدار اور اخلاقیات کا ملک ہے۔ آج بھی بلوچستان کے دیہات اور گاوں میں ہوٹل وغیرہ کا تصور نہیں بلکہ ہر گھر میں مہمان خانہ یا بیٹک لازمی ہوتا ہے۔ شروعات میں چونکہ سوشل میڈیا نہیں تھا تو پاکستان نے اپنے مین سٹریم میڈیا کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بلوچستان میں کو ئی آزادی کی تحریک وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔ پھر جب بین الاقوامی میڈیا نے اس جھوٹ سے پردہ ہٹایا تو پاکستانی میڈیا نے حسن نثار جیسے صحافیوں کی مدد سے یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی کہ یہ کوئی عوامی تحریک نہیں بلکہ چند سرداروں کا مسئلہ ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ سردار شدت پسند ہیں اور اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کے خلاف ہیں، نواب بگٹی کے بارے میں پروپیگنڈا کیا کہ وہ ظالم ہیں، انکی اپنی جیلیں ہیں جہاں وہ اپنے مخالفین پر تشدد کرتے ہیں۔ اس پروپیگنڈا کو زیادہ قابل یقین بنانے کیلئے کئی کہانیاں اور کردار سوشل میڈیاپر لائے گئے کہ وہ نواب بگٹی کے جیلوں میں رہے ہیں۔ لیکن سب جھوٹ تھا۔  

لاپتہ افراد کے مسئلے پر پاکستان اپنی مین سٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا کے زریعے بہت پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے، 2008 سے جب بلوچستان میں لاپتہ افراد اورمسخ شدہ لاشوں کا ایک نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہواتو میڈیا خاموش تھا اور کبھی کسی بھی واقع کو کور نہیں کیا گیا لیکن اس کے بدلے میں یہ پروپگنڈا کیا گیا یہ لاپتہ افراد پہاڑوں میں جاچکے ہیں اور مسلح ہوگئے ہیں، کئی بار جب جنگ میں سرمچار شہید ہوئے ہیں تو ان کو لاپتہ افراد ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

2019 میں بی ایل اے کے مجید برگیڈ نے پی سی ہوٹل گوادر پر فدائی حملہ کیا اور ان سرمچاروں میں سے ایک تھے حمل فتح جن کا تعلق تربت سے تھا،تو پاکستانی میڈیا بلخصوص ARY نے حمل فتح کو حمل خان مری بنا کے پیش کیا جو 2016 سے لاپتہ تھے۔اس کے بعد سوشل میڈیا میں کئی دن تک یہی بات دہرائی جا رہی تھی کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ماما قدیر اور باقی لاپتہ افراد کے لواحقین کو سوشل میڈیا میں ٹرولز کا نشانہ بنایا گیا۔

2013میں جب The Voice for Baloch Missing Personsنے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا تو اس مارچ میں شریک لوگوں کیلئے پنجاب میں بہت سے دشواریاں پیدا کی گئیں، اس کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بھی اس کو ناکام بنانے کیلئے بہت پروپیگنڈا کیا گیا، احمد قریشی نامی ایک صحافی جو اُس وقت ایکسپرس نیوز میں انکر تھے اور آج کل نیو نیوز میں کام کرتے ہیں، اس نے باقائیدہ ماما قدیر کی کردار کشی کی یہاں تک کہہ دیا کہ ماما قدیر کو بینک سے فراڈ کرنے کے جرم میں نوکری سے نکالا گیا ہے اورلانگ مارچ کے بارے میں کہا کہ ماما قدیر کو فی کلومیٹر ایک لاکھ روپے ملتے ہیں اور باقی لواحقین کو 25 ہزار فی کلومیٹر ملتے ہیں۔

کچھ با عتماد ذرائع کہ مطابق پاکستانی ایجنسیاں سوشل میڈیاپر بلوچ سیاسی اور مسلح جدوجہد کے خلاف اپنی منفی پروپگنڈے کو زیادہ تیز اور موثر بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اس کے لیے وہ سینکڑوں کی تعداد میں غیر بلوچوں کو کوئٹہ کینٹ میں بلوچی زبان سکھارہے ہیں اور پھر ان کو اپنے سوشل میڈیا سیل میں بھرتی کرہے ہیں، اس سے ریاست کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ایک تو دنیا کو یہ دیکھانے کی کوشش کرنا کہ بلوچ عوام جنگ کے حق میں نہیں ہے اور پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور دوسری ٹارگٹ بلوچ عوام ہے، ریاست یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بلوچ عوام آزادی کے اس جنگ کو مکمل سپورٹ کرتا ہے اور سرمچاروں کا طاقت ہی بلوچ عوام کا سپورٹ ہے تو اس سپورٹ ختم کرنے کیلئے اور سرمچار اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کیلئے ہی سوشل میڈیا پہ بلوچی زبان میں پروپگنڈا کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر بلوچ کے خلاف منفی پروپگنڈے کے ساتھ ساتھ ISPR مختلف ڈراموں اور فلموں کے ذریعے بھی یہ کام جاری ہے، ISPR کے ڈراموں میں اکثر بلوچوں کو پاکستان پرست دیکھایا جاتا ہے۔ فوج کو مسیحا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ بلوچ کو پاکستان کی قومی دہارے میں شامل کیا جائے اور کم سے کم دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ بلوچ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ حال ہی ریلیز ہوئے شہزاد رائے اور نعیم دلپل کا گانا ”واجہ“ بھی اسی پروپیگنڈا کی ایک کڑی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچ کومسلح جنگ کے ساتھ ساتھ اس انفارمیشن جنگ میں بھی پاکستان کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس کیلئے مضبوط حکمت عملی بنانے ہونگے۔ اس کی ایک مثال ابھی حال ہی بی ایل اے کے پنجگور اور نوشکی کے فدائی حملوں میں ملتی ہے جہاں بی ایل اے نے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پریس ریلیز جاری کیئے اور میڈیا کو خبر ملتی رہی دوسری طرف ریاست ان پریس ریلیز کو کاونٹر نہیں کر سکا کیونکہ بی ایل اے گراونڈ سے اپنے سرمچاروں کی آواز میں جنگ کی صورتحال لوگوں تک پہنچاتا تھا۔

بلوچ سیاسی اور مسلح تنظیموں کو ریاستی پروپیگنڈے کو کاونٹر کرنے کیلئے ایک پلان بنانا ہوگا اور اپنی سوشل میڈیا سلز کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہر طرح کی پروپیگنڈا کا مقابلہ ممکنہ طور پر کیا جاسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں