مہر گہوش ایک کتاب نہیں
تحریر: عائشہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مہرگہوش شاید کچھ لوگوں کیلئے صرف 176 صفحات پہ مشتمل کتاب ہوگی، مگر یہ ایک ایسے شخصیت کے قلمبند کئے ہوئے الفاظ ہیں جو پچھلے دو دہائیوں سے مسلسل ایک جنگی حالت سے گزر کر ان کیفیت کو بغور جائزہ لے کر ہمارے سامنے لانے کی جدوجھد اس کتاب کی شکل میں کی ہے تاکہ جن خامیوں کو ہم نے نظر انداز کیا تھا جنکی بدولت ہمارے جہد میں نشیب و فراز آئی، وہ آج کے ہمارے با شعور قوم میں دوبارہ پیدا نہ ہوں اور سب سے خوشی کی بات کہ یہ کتاب بلوچ لیبریشن آرمی کے کمانڈر ان چیف بشیر زیب نے لکھی ہے جو کہ اس دہائی کی جنگی حالات میں سب سے پہلی کتاب ہے اور یہ ہمارے لئے بہت ہی فخر اور خوشی کی بات ہے کہ بشیر زیب جیسے باشعور اور بہادر انسان ہمارے لئے بلوچ قوم کیلئے اپنے زندگی اپنا ہر چیز قربان کرکے دل اور جان سے لڑ رہے ہیں اس جنگ کو آگے لے جا رہے ہیں اور مشکل جنگی حالت میں رہ کر اپنے خیالات کو ہمارے سامنے رکھہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جنگ اب اس شعوری سطح پہ پہنچی ہے جسے پیچھے دھکیلنا اب نہ ممکن ہے۔
یہ کتاب ہمیں جنگی ادوار سے لیکر اپنے زہنی سوچ و فکر کو پختہ کر کے خود کو سمجھنے اپنی زہنی صحت کو بیمار کرنے سے روکتی ہے اور جو اس مرض میں مبتلا ہیں انہیں اسے نکلنے میں مدد کرتی ہے اس وقت اگر ہم اسے پڑھ کر عمل کریں ،عمل جو کہ اس کتاب کی سب سے زیادہ کہی گئی الفاظ ہے کیونکہ جنگ ہو یا ہماری زہنی صحت کی آبیاری ان سب کیلئے سب سے پہلا جو اقدام ہے، وہ ہے عمل ،محترم کمانڈر نے صاف الفاظ میں اپنے قوم کو کہا ہے کہ آپ کچھ پڑھتے ہیں تو اسے سمجھ کر عمل کریں صرف اور صرف اس کتاب کے کہے الفاظ کو دوسرے تک پہنچانا یہ عمل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ صرف دکھاوے کے زمرے میں آتا ہے کہ میں بھی پڑھتا ہوں مگر کیا فائدہ اس زہانت اور شعور کا جو عملی نہ ہو اسی طرح اگر آپ جنگی حالت میں ہو یا پھر آج کل ہمارے قوم میں سب سے عام بیماری جس میں ہر شخص مبتلا ہے ڈپریشن جسے ہم مانتے نہیں جسے ہم قبول کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ میں اعصابی طور پہ بیمار ہورہا ہوں اور مجھے جس کو علاج کرنے کی ضرورت ہے آج ہماری آدھے سے زیادہ قوم اسی مرض میں مبتلا ہے اور اسکی بڑھنے کی شرح میں سب سے بڑا ہاتھ ہم سب کا ہے کیونکہ ایک تو ہم ایک دوسرے کوسمجھنے میں ناکام ہیں اور کسی مجلس میں بیٹھ کر اپنے ہی سنگت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اسے نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے چاہے وہ مزاق میں ہی کیوں نہ ہو۔ مگر وہ شخص اس قدر محسوس کر بیٹھتا ہے کہ اسکا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے اور اسی بات پر جسے آپ مزاق کہتے ہیں آپ اپنے بہت ہی اچھے سنگت کو کھو بیٹھتے ہیں اسلئے ایک قومی لیڈر ہونے کے ناطے میں سمجھتی ہوں وہ ہزاروں لوگوں سے مل کر ہزاروں واقعات کا جائزہ لے کر انکے کہے گئے الفاظ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اپنے الفاظ کا چنائو ہمیشہ صحیح سمت میں رکھیں کیونکہ یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو ایک شخص کے دل میں آپکے لئے محبت پیدا کر کہ اسے آپکی طرف راغب کرتے ہیں اور وہ شخص آپکو سمجھ کر آپکو سنتا ہے اور عمل کرتا ہے اور اسی عمل سے قومیں یکجا ہوتی ہیں، آگے بڑھتی ہیں کیونکہ ہم ایک غلام قوم ہیں اور ہر وقت ہم جانے انجانے اذیتوں کا شکار رہتے ہیں اور اذیتوں میں وہ محبتیں ہی ہوتی ہیں جو حوصلوں کو دوام بخشتی ہیں۔
دوسری سب سے اہم بات جس سے ہم سب بیگانے ہیں وہ ہے ہماری خود کی ذات کو سمجھنا خود کو اپنے دوسرے جھدکاروں سے تشبیہ دینا اپنے کسی جھدکار سے خود کو تشبیہ دیے کر انکے جیسے عمل کرنا جو کہ مثبت ہو غلط نہیں ہے بلکہ غلط یہ ہے کہ ہم اس قدر انکے جیسے اعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خود کو انکے جیسا تصور کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتے ہیں اور اس بیچ ہم خود کو اپنے اندر موجود صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور انکے جیسے عمل کرنے کی انتھک جدوجہد کرنے لگ جاتے ہیں کہ اسی پاداش میں ہم خود کو سمجھنے اور جاننے میں اس قدر نا کام ہو جاتے ہیں کہ ہمُ یہ بھول جاتے ہیں کہ سب سے اوّل بات تو ہر انسان میں اپنی خوبیاں ہوتی ہیں کچھ میں ظاہر کچھ میں پوشیدہ اس میں وہ صلاحیت ہیں جو کسی دوسرے میں نہیں جنکو ہم دیکھ نہیں پاتے سمجھ نہیں پاتے کیونکہ ہمارے سوچنے کا زاویہ منفی ہوتا ہے۔
ہم چیزوں کا ظاہری جائزہ لیتے ہیں اور ایک ٹرینڈ کی طرح ہم وہی عمل کرنے لگ جاتے ہیں جسکی واہ واہ ہو رہی ہے اور باقی سب چھوڑ کر اگر ہم سب ایک جیسا عمل کرنے ایک جیسے اعلی بننے کی جدوجھد میں لگ جائیں سب لیڈر اور دانشور بننے میں لگ جائیں سننے کے بجائے سب یہ بات ذہن میں رکھیں کہ میں تو دانشور ہوں مجھے بولنا ہے سب ایسے سوچنے لگے تو پھر سننے والا کون ہوگا سیکھنے والا کون ہوگا جب سب سکھانے لگ جائیں اگر سب کمانڈر بنینگے تو سپاہی کون ہو گا لڑے گا کون دشمن کا سامنا کرے گا جواب صاف واضح ہے کوئی بھی نہیں۔
ہم سب میں صلاحیت ہیں اگر ہمیں ایک نام بننا ہے تو اپنی صلاحیتوں کو جان کر انہیں بروئے کار لانے کی جدوجھد کریں نہ کہ کسی دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر اسے بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے اندر کی انرجی کو مثبت استعمال کر کے اپنا حصہ اس قومی جھد اس جنگ میں ڈالیں کیونکہ یہ جنگ ایک فرد کیلئے نہیں ہورہی یہ جنگ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے ہے یہ جنگ ہماری بقا کیلئے ہورہی ہے یہ جنگ ہماری شناخت کیلئے ہے جسکے لئے ہمیں یکجا ہونا ہے اپنے اندر کی کمزوریوں کو دور کر کہ خود کو دماغی طور پر مضبوط بنا کر معاملات کو صحیح زاویہ سے دیکھیں سمجھیں اور انہیں سلجھانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ ایک چھوٹی سی غلط فہمی سے اپنے لوگوں سے اپنے قوم سے منہ موڈ کر گھر بیٹھ جائیں یقین مانیں یہی سوچ آپکو بنا کسی دکھاوے اور شوشہ کے بنا کسی منفی جدوجھد کے آپکے قوم میں ایک اعلی اور عظیم مقام دے گی۔
یہ تھی دو سب سے ضروری باتیں جو میں نے اس کتاب میں پڑھا سمجھا اور محسوس کیا کیونکہ اپنے لوگوں میں رہ کر میں نے یہ چیزیں دیکھی ہیں اور محسوس کی ہیں اور مہر گہوش کو پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میری محسوسات غلط نہیں تھی اسلئے میں نے مہرگہوش پہ اپنا چھوٹا سا خلاصہ پیش کر رہی ہوں اور اس پڑھنے او عمل کرنے کی تلقین کرتی ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں