شناخت، اقدار اور آزادی
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
آزادی کسی بھی فرد یا قوم کا بنیادی حق ہے ، کسی بھی فرد یا قوم کی آزادی اس کی وسائل کے ساتھ ساتھ شناخت سے بھی وابسطہ ہے ،گر اس کی شناخت بطور محکوم ، یا غلام کی ہے تو اس شناخت کو کیونکر وہ اپنے آقا سے برابری کی بنیاد پہ لاسکتا ہے یا محکوم اپنی زندگی کیسے “محبت و عزت اور وقار” کے ساتھ بطور فرد یا بطور قوم گذار سکتا ہے؟ ان بنیادی سوالات پہ روسو سے لے کر آج تک فلسفے کی دنیا میں مسلسل گفت و شنید ، تجزیہ و تبصرہ ،بحث و مباحث جاری ہے ، ھیگل کے فلسفیانہ نکات میں تو شناخت ایک بنیادی کردار کی حامل ہے۔ اسکی مختلف تشریحات و تعبیرات ، مختلف سیاق و سباق میں کی جارہی ہیں ، سوشل سائنسز کے علاوہ ،منطق ، تجزیاتی فلسفہ ، حتی کہ ریاضی میں شناخت مختلف انداز میں زیر موضوع رہی ہے ، فرائیڈین نفسیات میں شناخت ریاضی کے حوالے سے کارگر ثابت ہوا۔ فلسفے اور اکیڈیمیاء میں شناخت کے تناظر میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے کیونکہ ہر ذی شعور انسان محکومیت و غلامی کا طوق اتار کر نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی “محبت ، عزت اور وقار” کو ترجیح دیتا ہے ۔ اور یہی تین الفاظ شناخت کو بنیاد فراہم کرتی ہے ، شناخت کا یہ تعلق یک طرفہ نہیں بلکہ باہمی ہوتا ہے، یہیں سے اونچ نیچ، درجہ بندی شروع ہوتی ہے ، اور فلسفیانہ مباحث کا آغاز ہوتا ہے کہ اس درجہ بندی کو کس قدر کم کرکے ایک (سیلف) کو دوسرے (ادر) سے ممکنہ برابری کے سطح پہ لایا جاسکے۔
بنیادی طور پہ شناخت کا تعلق فرد یا قوم کے اپنے وجود سے بڑھ کر دوسرا (ادر) کے ساتھ وابستہ ہے، کہ “وہ” یعنی دوسرا (ادر )”میں” یعنی وجود کو ، اس کی شناخت کو کیسے تصدیق کررہا ہوتا ہے ، مماثلت و افتراق کا یہ پہلو اسی تصدیق کے باعث ہوتا ہے۔ اس لیے محض فردی آذادی(ایبسیلوٹ فریڈم) کا تصور کہیں پہ عملی طور پہ وجود نہیں رکھتا، روسو جو تاریخ انسانی میں فرد کی آذادی کا سب سے بڑا وکیل رہا ہے ،لیکن معاہدہ عمرانی میں روسو بھی (سیلف /ادر) کو ایک دوسرے کے لیے پابند بناتا ہے ،سیلف اور ادر کا یہ تعلق کا سلسلہ شروع دن سے جاری ہے لیکن ھیگل کے ہاں یہ “بنیادی تضاد” کہیں آقا اور غلام کی صورت ، کہیں حاکم اقوام و محکوم اقوام کی صورت تو کہیں ذیلی و بالائی طبقات کی صورت میں، کہیں افراد و ریاست و ریاستی اداروں کے صورت میں موجود رہتا ہے، کہیں پہ مفاہمت میں بدل کر اپنی شناخت کو غلام کی صورت ، محکوم قوم کی صورت ، یا ذیلی طبقہ کی صورت یا پھر ریاستی اداروں کی تابع داری کی صورت قبول کی جاتی ہے، جہاں “محبت، عزت و وقار” کا رشتہ برقرار نہیں رہتا ، یا پھر مزاحمت کی راہ اپنا کر تاریخ میں آذادی کے سفر پہ رواں ہوکر “محبت عزت اور وقار” کو پالیتے ہیں ، اسی مزاحمت “بنیادی تضاد“ (آقا و غلام کی تضاد) کو ھیگل بنیاد بناکر جدلیاتی انداز سے تاریخی تناظر میں حل کرنے کی ممکنہ کوشش کرتا ہے۔
ھیگل پہ بہت سے اعتراضات کے ساتھ ساتھ شناخت کے حوالے سے یہ اعتراض بارہا یوروپین و امریکن اکیڈیمیا کی طرف سے اٹھایا گیا کہ ھیگل نے سیلف و ادر کی شناخت کے حوالے سے آقا و غلام کے جدلیاتی تناظر میں بہت کچھ لکھا ہے جو شناخت کے حوالے سے “افقی شناخت” کے زمرے میں آتی ہے لیکن سیلف اور اداروں کے باہمی تعامل کے حوالے سے “شناخت” پہ نہیں لکھا ہے جو ان کی فلسفیانہ نظام میں گمشدہ ہے ایسی شناخت “عمودی شناخت” کے زمرے میں آتی ہے ، میرا نہیں خیال یہ اعتراض اتنا جاندار ہے ، ھیگل کو فقط ان کے ایک کتاب سے سمجھا نہیں جاسکتا ، ھیگل دنیا کا وہ واحد فلاسفر ہے جن کے ایک ایک جملے کو لے کر ان پہ اکیڈیمیا میں جدیدیت و مابعد جدیدیت ، ساختیات و پس ساختیات ، کالونیل و پوسٹ کالونیل ڈسکورسز میں متھس کھڑی کی گئیں ہیں ، اور ان کے ساتھ اس سے بڑھ کر یہ زیادتی ہوئی کہ بجاۓ اُنہیں براہ راست سمجھنے کے دوسرے فلاسفرز کے عکس میں دیکھا اور سمجھا جارہا ہے، ھیگل چونکہ خود کُلیت کا قائل ہے اس لیے ان کا نظام فلسفہ کو سمجھنے کے لیے ان کا نظام فلسفہ کو بھی کُلیت میں دیکھنا ہوگا “فلاسفی آف راہٹ” میں ھیگل اس افقی شناخت پہ سیر حاصل بحث کرچکا ہے جس پہ مارکس لوکاچ نے تنقیدی نقطہ نظر اپنایا ہوا ہے۔
سارتر جو وجودیت کو بنیاد مان کر “ادر” کو دوزخ قرار دیتا ہے ،لیکن اس ادر کے بغیر کوئی چارہ ممکن ہی نہیں انسان تو خیر بڑی بات ہے ہوا کی سرسراہٹ سے لے کر پرندوں کی چہچہاہٹ تک کو “ادر” کی ضرورت پڑتی ہے، وگرنہ چیچہاہٹ و سرسراہٹ کا ہونا نہ ہونا کوئ معنی نہیں رکھتا ۔گو یہ باتیں دیکھنے کو بہت سادہ ہیں ، لیکن فلسفہ کی دنیا میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، جس طرح کموڈیٹی دیکھنے میں بہت ہی سادہ ہے کہ دو ویلیوز (یوز ویلیو/ایکسچینچ ویلیو) رکھتی ہے لیکن جونہی کمیوڈیٹی مارکیٹ کا حصہ بنتی ہے تو بقول مارکس پراسرار قوتوں کا عمل دخل شروع ہوجاتا ہے ، اب کموڈیٹی سے بڑھ کر کموڈیٹی کا تصور افلاطونی تصور کی حیثیت اختیار کرتا ہے جہاں تصور اصل اور شے نقل بن جاتی ہے ، اسی طرح شناخت کے حوالے سے بھی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں،کہ اس کی حیثیت “کہ ادر کے بغیر شناخت کیسے ممکن ہے اور ادر کے ساتھ شناخت متوازن کس طرح ہوسکتی ہے” ؟ شناخت کی محدودیت و لامحدودیت ، مصنوعی لامحدودیت ، حقیقی لامحدودیت ، اس سارے عمل میں پراسرار قوتوں کی دخل اندازی ، علمی اصطلاحات کا دخل اور ان قوتوں کا تدارک ، لازمیت و حدوث کے تناظر میں شناخت کو دیکھنا یہ پیچیدگیاں ھیگل کے “فینمینا لوجی آف اسپرٹ” “سائنس آف لاجک” فلاسفی آف ہسٹری “ اور فلاسفی آف رائٹ “ پہ تنقیدی نقطہ نظر ڈالنے سے ممکنہ طور حل ہوسکتے ہیں۔
(جاری ہے)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں