ریکوڈک بل پر اختلافات: حکمران اتحاد میں دراڑیں نمودار

293

پاکستان کی سیاسی صورتحال کے درمیان حکمران اتحاد میں پہلی بار اختلافات کھل کر اس وقت سامنے آئے جب 2 اتحادی جماعتوںنے بلوچستان میں موجود ریکوڈک تانبے اور سونے کی کان کے منصوبے کی بحالی سے متعلق ایک متنازع بل پر وفاقی کابینہ کےاجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کےاجلاس کا 2 اتحادیوںجمعیت علمائے اسلام (جے یو آئیف) اور بلوچستان نیشنل پارٹیمینگل (بی این پیمینگل) نے بائیکاٹ کیااور اپنا احتجاج درج کروانے کے بعد اجلاس میں شامل ہو گئے۔

صورتحال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے وزیر اعظم نے جے یو آئی (ف) اور بی این پی کے تحفظات دور کرنے کے لیے کابینہ کیکمیٹی تشکیل دی اور یقین دہانی کرائی کہ دونوں اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے جلد ہی ایک ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے گا۔

ناراض دونوں جماعتوں کا مؤقف تھا کہ سینیٹ میں حال ہی میں منظور ہونے والا ریکوڈک سے متعلق فارن انویسٹمنٹ (پروموشن اینڈپروٹیکشن) بل 2022 بلوچستان کے عوام کے حقوق کے خلاف ہے اور بل کی تیاری کے دوران دونوں جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جے یو آئی (ف) اور بی این پی دونوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ اجلاس کیے جن میں اپنے مطالباتتسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں اتحاد چھوڑنے کے آپشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

تاہم وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کابینہ اجلاس کے بعد جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ کابینہ نے ناراض اتحادیوں کے تحفظاتاور شکایات دور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کی تشکیل کردہ کمیٹی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کرے گی، انہیں اعتماد میں لے گی اور انکے تحفظات دور کرے گی، انہوں نے مزید کہا کہ مشاورت کے بعد جلد ہی ایک ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ نے ریکوڈک پروجیکٹ فنڈنگ پلان اور 2 عالمی کمپنیوں کے ساتھ منصوبے کے حتمی معاہدے کی منظوری دی ہےجس پر جمعرات کے روز دستخط کیے جائیں گے۔

اجلاس کے دوران وفاقی کابینہ نے ریکوڈک اور سرکاری اداروں کی تشکیل نو کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کی بھی منظوری دی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے 9 دسمبر کو حکومت پاکستان اور 2 عالمی فرمز اینٹوفاگاسٹا پی ایل سی اور بیرک گولڈکارپوریشن کے درمیان مارچ میں طویل عرصے سے تعطل کے شکار ریکوڈک کان کنی کے منصوبے کی بحالی کے لیے طے ہونے والےمعاہدے کو شفاف اور قانونی قرار دیا۔

پیر کے روز سینیٹ نے فارن انویسٹمنٹ (پروموشن اینڈ پروٹیکشن) بل 2022 منظور کرلیا جس کے بعد ریکوڈک کان کنی منصوبے کیتشکیل نو کی راہ ہموار ہوگئی۔

ریکوڈک کان کنی کے منصوبے کے اصل معاہدے پر 2006 میں دستخط کیے گئے تھے اور اس میں کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ اورچلی کی کمپنی اینٹوفاگاسٹا کو 37.5 فیصد حصہ دیا گیا تھا جب کہ بلوچستان حکومت کو 25 فیصد حصہ ملا تھا۔

یہ دونوں عالمی کمپنیاں کنسورشیم ٹیتھیان کاپر کمپنی کا حصہ تھیں اور انہوں نے بلوچستان میں ریکوڈک سونے اور تانبے کے بڑےذخائر دریافت کیے تھے۔

انتہائی نفع بخش اوپن پٹ مائن پروجیکٹ 2011 میں اس وقت رک گیا جب مقامی حکومت نے ٹیتھیان کاپر کی لیز کی توسع سے انکارکر دیا اور 2013 میں سپریم کورٹ نے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔

2019 میں عالمی بینک کی ثالثی ٹریبونل کمیٹی نے کان کنی پروجیکٹ کو غیرقانونی طریقے سے روکنے پر پاکستان پر جرمانہ عائد کیا۔

مارچ 2022 میں وفاقی اور بلوچستان حکومتوں نے 2 کمپنیوں اینٹوفاگاستا اور بیرک گولڈ کارپوریشن کے ساتھ ریکوڈک پروجیکٹ کیتشکیل نو کے فریم ورک سے متعلق معاہدہ کیا جس کے تحت اینٹوفاگاسٹا اس سے باہر ہوگئی ۔

نو تشکیل شدہ پروجیکٹ جو بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو نکالنے کے لیے کام کرے گا، اس کے تحت پاکستان ریکوڈککیس میں 11 ارب ڈالر کے جرمانے سے بچ گیا۔

نئے معاہدے کے تحت بیرک گولڈ نے منصوبے میں پاکستان اور بلوچستان کی حکومتوں اور 3 سرکاری اداروں کے ساتھ 50 فیصدشراکت دار بننے کا فیصلہ کیا جب کہ چلی کی فرم پاکستانی شیئر ہولڈر کی جانب سے ادا کیے گئے 900 ملین ڈالر کے عوض معاہدےسے باہر نکل گئی۔

بلوچستان حکومت نئے معاہدے کے تحت منصوبے میں 25 فیصد شیئر رکھتی ہے اور دیگر 25 فیصد شیئر ہولڈنگ مساوی طور پر 3 سرکاری اداروں کے پاس ہے۔