راشد حسین کے جبری گمشدگی کے چار سال، حب میں احتجاج

112

پیر کے روز کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں بلوچ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کے جبری گمشدگی کے چار سال مکمل ہونے پر احتجاج کیا گیا۔

احتجاج میں لاپتہ افراد کے لواحقین، بلوچ طلباء سمیت نیشنل پارٹی اور بی ایس او پچار کے کارکنان نے شرکت کی۔

شرکا نے ہاتھوں میں راشد حسین کی جبری گمشدگی کے خلاف پوسٹر پلے کارڈ اٹھا کر شہر کی سڑکوں پر نعرے بازی کی بعد ازاں ریلی کے شرکاء نے لسبیلہ پریس کلب کے سامنے جمع ہوکر احتجاج کیا۔

اس موقع لاپتہ راشد حسین کی والدہ، بھتیجی ماہ زیب، بلوچ وائس فار مِسنگ پرسنز کے سمی دین محمد، بلوچ یکجتی کمیٹی کی آمنہ بلوچ، نیشنل پارٹی کے واحد رحیم، ایڈوکیٹ نواز برفت اور لاپتہ اسلم بلوچ کے والد اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آج سے چار سے پہلے راشد حسین کو متحدہ عرب امارت سے لاپتہ کرکے چھ مہینے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا۔ہم تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔ متحدہ عرب امارات سمیت پاکستان بھائی کو قانونی اور انسانی حقوق نہیں دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے چار سال سے ہم کراچی اور کوئٹہ پریس کلبوں کے سامنے احتجاج سمیت عدالت سے رجوع کرچکے ہیں لیکن پیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہی بلکہ لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن میں راشد کی والدہ سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین کی تذلیل کی جاتی ہے۔

مقررین نے کہا کہ راشد حسین بلوچ 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے وہاں کے خفیہ اداروں ان کے رشتہ داروں کے سامنے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔ راشد حسین انسانی حقوق کے متحرک کارکن تھے انہیں متحدہ عرب امارات کے خفیہ اداروں نے پاکستان حکومت کی ایماء پر جبری طور لاپتہ کیا اور چھ مہینے تک نامعلوم مقام پر رکھنے کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا جہاں وہ تاحال لاپتہ ہے۔

ماہ زیب نے کہا کہ اقوام متحدہ ادارہ برائے مہاجرین سمیت دیگر عالمی اداروں کو راشد حسین کا کیس بھیج چکے ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے متحدہ امارات کے نام ایک ہنگامی اپیل بھی جاری کی لیکن اس پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کی راشد حسین کے کیس کے حوالے سے خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے بلکہ ان کی کارکردگی سے لوگ مایوس ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ بلوچستان میں سیاسی و سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت دیگر افراد کے جبری گمشدگیوں پر نوٹس لیکر اپنا فریضہ ادا کرے۔

مقررین نے کہا کہ ریاست نے راشد پر جو الزام لگائے ہیں وہ چار سالوں میں ثابت نہیں کرسکا۔ راشد کو عدالتوں میں پیش کرکے سزا دیں۔ اگر ریاست کو اپنے عدالتوں پر بھروسہ نہیں تو یہ عدالتوں کا تماشہ بند کیا جائے۔

راشد حسین کے گمشدگی کو چار سال مکمل ہونے پر آج سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر #SaveRashidHussain کے ہیش ٹیگ کے ساتھ آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔