اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس منعقد ہوا جہاں بلوچستان کے علاقے خضدار سے برآمد ہونے والےگیس کی حفاظت کے لئے مقامی فورس بنانے کی تجویز پیش کی گئی–
اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے حکام نے بتایا کہ خضدار میں گیس کے وسیع زخائرملے ہیں مگر وہاں پر سکیورٹی اور امن اومان کامسئلہ ہے اس معاملے پر مقامی رہنما اختر مینگل سے مشاورت کی گئی–
اجلاس میں کہا گیا جس علاقے سے گیس برآمد کی جائے گی وہاں پر مقامی لوگوں کو بھرتی کر کے فورس بنائی جائے جو گیس برآمدکرنے والی کمپنی کی حفاظت پر مامور ہو جس میں سکیورٹی اداروں کا کوئی عمل دخل نا ہو–
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کھربوں روپے کی کیس درآمد کرتا ہے جبکہ خضدار سے برآمد گیس کو زیر استعمال لا کر ہم قومیخزانے کی بچت کر سکتے ہیں–
پاکستانی سیکورٹی حکام و حکومت بلوچ آزادی پسندوں کو معدنیات برآمد کرنے والی کمپنیوں کے لئے بڑا چیلنج قرار دیتے ہیں جن کیحفاظت کے لئے مختلف سیکورٹی یونٹ قائم کئے گئے ہیں–
واضح رہے بلوچستان سے قدرتی معدنیات جن میں تیل، گیس، کوئلہ دیگر ذخائر برآمد کرنے والے ملکی و غیر ملکی کپمنیاں شامل ہیںاکثر اوقات بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں بلوچ آزادی پسند ان پروجیکٹس کو استحصالی منصوبے قراردے چکے ہیں–
ماضی میں ان پروجیکٹس کو مختلف بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی جانب سے حملوں میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ان حملوں میںبلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے شدید نوعیت کے حملے نمایاں ہیں۔
اس سے قبل بلوچستان کے علاقے قلات شیخڑی کے مقام سے 2020 میں 10 کھرب مکعب فٹ گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ یہگذشتہ سترہ سالوں میں دریافت ہونے والی سب سے بڑی ذخائر میں سے ایک ہیں۔ مذکورہ سائٹ کے تکمیل پر ایل ایم جی کی درآمدمیں کمی اور اس سے 9 سو ملین ڈالر کے بچت کا اندازہ لگایا گیا تھا۔
اسی طرح بولان کے علاقے مچھ تیل و گیس کا بڑا ذخیرہ 2018 میں دریافت کیا گیا تھا۔ ذخیرہ ماڑی پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ اور پاکستانپیٹرولیم لمیٹڈ نے مشترکہ طور پر دریافت کیا، خام تیل کا یہ ذخیرہ بلوچستان کے مشرقی ضلع کچھی بولان کے علاقے مچھ میں دریافتہوا جس سے روزانہ کی بنیاد پر خام تیل نکالا جارہا ہے۔
مذکورہ دونوں پروجیکٹ متعدد بار بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے حملوں میں نشانہ بنائے گئے ہیں–