تربت سے پاکستانی فورسز نے چھاپوں کے دوران چار نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا۔
علاقائی ذرائع کے مطابق گذشتہ شب سیکیورٹی فورسز نے تربت کے علاقے گوکدان میں مختلف گھروں پر چھاپے مار کر چار نوجوان لاپتہ کردیے، نوجوانوں کے اہلخانہ نے واقعے کی تصدیق کی ہے۔
مذکورہ افراد کی شناخت مرزا ولد برکت، بلال ولد حاجی عبدلعزیز، عبدالرازق ولد محمد جان اور محمد حنیف ولد غلام جان کے طور پر ہوئی ہے جبکہ گوگدان ہی سے محمد حنیف دادو نامی نوجوان پہلے سے زیر حراست ہیں۔
دو روز قبل تربت ہی کے علاقے آبسر یعقوب محلہ سے تین نوجوانوں سید جان، شہزاد اور جہانزیب کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جن کے حوالے سے تاحال کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
قبل ازیں گوکدان میں ہفتے کی شام تمام دکانیں اور پیٹرول پمپ فورسز نے زبردستی بند کردیے تھے۔ جس کے سبب کاروباری افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ علاقوں میں خوراک کی قلت پیدا ہوگئی تھی۔
دکانداروں کے مطابق ہفتے کی شام کو فورسز کے اہلکاروں نے دکانداروں پر تشدد کرکے دکان اور پیٹرول پمپس بند کرائے ہیں۔ جس کے سبب ہمارے لاکھوں کا نقصان ہوا ہے اور میڈیکل اسٹوریں کی بندش سے مریضوں کے مشکلات میں اضافہ ہوا۔
علاقہ مکینوں کے مطابق مذکورہ روز فورسز پر حملے کے بعد فورسز کی بھاری نفری نے آبادی کا گھیراو کرکے لوگوں پر تشدد کیا اور کاروبار بند کرائے۔
بعد ازاں فورسز و علاقہ مکینوں نے ملاقات میں فورسز نے دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی تاہم چند دکانیں تاحال بند ہیں جنہیں تاحال کھولنے کی اجازت نہیں کی دی گئی۔
مذکورہ واقعات فورسز پر ایک شدید نوعیت کے بعد پیش آئی ہیں جہاں گوکدان میں بلوچ لبریشن آرمی کے ایک حملے میں پاکستان فوج کےکم از کم سات اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔
علاوہ ازیں کیچ کے علاقے تجابان میں بھی فورسز کے خلاف علاقہ مکینوں کی احتجاج دیکھنے میں آئی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے فورسز کے پوسٹ کو نشانہ بنایا جس کے ردعمل نے فورسز نے عام آبادی پر مارٹر گولے داغے اور شدید فائرنگ کی، فائرنگ کی زد میں آنے سے ایک خاتون زخمی ہوگئی۔
علاقہ مکینوں نے فورسز کے انخلاء کا مطالبہ کیا جبکہ مذکورہ علاقے اس سے قبل اسی نوعیت کے واقعات رونماء ہوچکے ہیں۔
گذشتہ روز تجابان مظاہرین اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ چورہ روز کے اندر فرنٹیئر کور کیمپ کو دوسری جگہ منتقل کی جائیگی۔