بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ دہشت پھیلانے کی سازش ہے۔ بی ایس ایف

80

بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ مذمتی بیان میں کہا کہ گزشتہ شب بلوچستان کے ضلع خضدار گریشگ سے بی ایس ایف گریشگ زون کے سابقہ صدر سراج نور بلوچ اور محمد عارف ھمبل کو گواراست کے مقام پر اغواء کر کے لاپتہ کردیا گیا ہے، سراج نور سرگودھا یونیورسٹی میں لاء ڈیپارٹمنٹ 6th سمسٹر کا طالب ہے جو اپنی چھٹیاں گزارنے کیلئے گریشہ آئے تھے جبکہ محمد عارف بلوچ حالیہ 2022 کو بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے مکمل کر چکا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اسکے علاوہ کیچ میں بھی مختلف علاقوں سے متعدد بلوچ طلباء کو اغوا کرکے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دینے کا بہانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسری جانب بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹیاں تشکیل دینا صرف لاپتہ افراد کے لواحقین کو دھوکہ کے علاوہ اور کچھ نہیں، ایسے ہتھکنڈوں کو زیر استعمال کرکے محض خوف و دہشت کو پھیلانے اور نفرتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے یہ تجربہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بلوچ طلباء کو آئے روز پاکستان کے مختلف شہروں سے جبراً لاپتہ کیا جارہا ہے اور طلباء کی ماورائے عدالت گُمشدگی حکومت وقت کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے حالیہ دنوں میں ریاستی فورسز کی جانب سے بلوچ طلبہ کو ماورائے عدالت لاپتہ کرنے میں تیزی لائی گئی ہے جبکہ دیگر صوبوں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی پروفائلنگ، تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کے ساتھ تعصبانہ رویہ رکھا جا رہا ہے جو کہ انتہائی قابل افسوس عمل ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ایک بنی بنائی سازش کے تحت بلوچ طلباء کو زہنی طور پر مفلوج بنا کر انہیں تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کیا جارہا ہے۔

انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ حکومت وقت اور مقتدرہ قوتوں کو بلوچ طلباء کی باحفاظت بازیابی میں عملی کردار ادا کرنا چاہیے اور انکے لواحقین کو انصاف دلائی جائے، جبکہ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ کو بند کر کے انکے ساتھ متعصبانہ رویے کو ترک کیا جائے تاکہ وہ پرامن اور پرسکون ماحول میں رہ کر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری کرسکیں.