بلوچ سماج کی پیچیدگیاں اور قومی آزادی کے لیڈرشپ کی احساس ذمہ داری
تحریر: نور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر ہم بلوچ سماج کا سائنسی تجزیہ کریں تو بلوچ قوم نے مختلف تاریخی اور ارتقائی مراحل سے گزر کر جدید بلوچ قوم کی تشکیل کی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق انسان اس کرہ ارض پر ساٹھ لاکھ سالوں سے آباد ہے۔ یہاں پہلے مختلف اقسام کے حیوان اور ڈائیناسور آباد تھے اور انسان کا نام و نشاں تک نہیں تھا۔ یہاں ساری زمین خالی پڑے تھے۔ بلوچ قوم نے بھی ہزاروں سال چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں ارتقا سے گزرکر موجودہ بلوچ قوم کی تشکیل کی ہے۔ کیونکہ ہر قوم پہلے چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں ہوتے ہیں اور بعد میں اپنی آفزائش نسل بڑھا کر قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایک قوم بننے کیلے وہ اپنے زبان، زمین، ثقافت اور مشترکہ معاشی روابط بناتے ہیں۔ بلوچ قوم نے بھی دنیا کے مختلف سماج اور قوموں کیطرح قدیم اشتراکی نظام، غلام داری نظام، جاگیردارنہ نظام، اور موجودہ نیمسرمایہ دارنہ نظام کے مراحل سے گزرکر اس موجودہ شکل میں موجود ہے۔ بلوچ قوم میں ابھی تک پوری طرح سرمایہ دارانہ نظام نے اتنی ارتقا نہیں کی ہے کیونکہ پاکستان نے اسے اپنا نوآبادی بنا دیا ہے اور بلوچستان میں کوئی صنعت و حرفت نہیں لگائی ہے کہ یہاں معاشی ترقی ہو۔
ہر قوم اور سماج میں مختلف طبقات ہوتے ہیں اور طبقات کی تعین ان کے پیداواری عمل کی سرگرمی اور ان کے معاشی حیثیت سے متعین ہوتا ہے۔ سماج میں ہر فرد کو اس طریقے سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ کون سے طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔
بلوچ قوم بھی اس سے جدا نہیں ہے۔ کیونکہ قوم اور سماج کو زندہ رہنے کیلے کام کرنا پڑتا ہے اور خاص معاشی ڈھانچے کے تحت لوگ کام کرتے ہیں۔ ایک پورا معاشی ڈھانچہ بنتا ہے۔
ایک پیداوار قوت اور پیداواری رشتے ہوتے ہیں جو کہ سارے معاشی نظام کوکنٹرول کرتے ہے۔ پیداواری قوتوں کا مطلب یہ ہے کہ انسان، اوزار اور ذرائع پیداوار یعنی زمین، کارخانے، زراعت، بینک اور ٹکنالوجی جو کہ سارے پیداوار کے ذرائع ہیں اور دوسری پیداواری رشتے ہیں جو یہ متعین کرتے ہیں کہ پیداوار کا تقسیم کیسے ہوتا ہے اور ذرائع پیداوار کامالک کون ہے۔ وہ جو ذرائع پیداوار کا مالک ہے وہ سرمایہ دار طبقہ اور جاگیردار کہلاتے ہیں اور دوسرا کام کرنے والا مزدور طبقہ اور کسان طبقہ کہلاتے ہیں ۔ جو کام کرنے والے لوگ زمینوں پر کام کرتے ہیں وہ کسان طبقہ کہلاتے ہیں، جو کارخانوں اور بڑےمیلوں میں کام کرتے ہیں وہ مزدور طبقہ کہلاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے دستکار، ہنر مند، دکاندار، ملازم، ٹیچر، یہ سب پیٹی بورزواز یعنی درمیانہ طبقے کے زمرے میں آتے ہیں اور تھوڑی سی سرمایہ اور ملکیت رکھتے ہیں۔
چونکہ بلوچستان میں مختلف علاقوں میں قبائلی نظام ہے اور بہت سے سردار، نواب، مری، مینگل، بگٹی، زہری اور بہت سی قبائل ہیں جو ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالک ہیں اور یہ سارے جاگیر دار طبقے کہلاتے ہیں، کیونکہ ان کا رشتہ ملکیت اور پیداواری سرگرمی سے ہوتا ہے تو اس لیے ان کا طبقاتی تعین اسی طرح سے ہوتا ہے کہ وہ ملکیت کا مالک ہے یا محکوم ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں مختلف طبقات ہیں اور بلوچستان کی آزادی کی تحریک ٹارگٹ کون ہے؟ آیا بلوچ قومی جنگ کا ٹارگٹ یہاں کے مقامی جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے ہیں؟ نہیں کیونکہ یہ مقامی جاگیردار اور سرمایہ دارطبقے پنجابی ریاست کے قومی غلامی اور استحصال کے شکار ہیں تو اس لیے یہ طبقے اگر بلوچستان کی آزادی میں میں شامل ہوجائیں تو ان کو خوش آمد کرنا چاہیے اور ان کے سرمایہ اور ملکیت کی حفاظت کرنا چاہئیے۔ تو ان سارے عوامل کا تجزیہ کرنے کے بعدہم اس نتائج پر آتے ہیں بلوچ قومی جنگ کوئی طبقاتی جنگ نہیں ہے بلکہ بلوچ قومی جنگ ہے اور بلوچ قوم کے سارے طبقوں کو اکھٹاکر کے لڑ سکتے ہیں اور فتحیاب ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان ایک نیم جاگیردارنہ ، قبائلی اور مختلف نسلوں، خاندانوں اور ذات و پات کے نظام سے جکڑا ہوا ہے اور یہ سارے ہزاروں سالوں کے طبقاتی نظام کے ارتقائی مراحل کے نشانیاں ہیں۔ جوں جوں یہاں سماج ترقی کرے گا اور سرمایہ داری نظام، تعلیم اورسائنس اور ٹکنالوجی کو فروغ ملے گا تو یہ سارے طبقاتی امتیاز اپنے طبعی موت مر جائیں گے۔
یہ سماجی امتیاز دنیا میں سارےسماجوں میں موجود تھا۔ کیونکہ ان سماجوں نے پہلے صنعتی انقلاب آیا اور سرمایہ داری نظام کا ارتقا ہوا تو بورزوازی نے اپنے سرماے اور منافع کی ہوس میں ان سماجی رشتوں کو بھی تہس نہس کردیا۔
کیونکہ بلوچ سماج ان سماجوں سے بہت پیچھے ہے اور پاکستان نے بلوچ قوم کو اپنا نوآبادی بنا دیا ہے اور بلوچ سماج کو دانستہ طور پر پیچھے کی دھکیل دیا ہے تاکہ یہاں لوگ تعلیم سے محروم رہیں اور پاکستان کی غلامی کریں۔ ہر سماجوں اور قوموں میں ایک پیشرو اور باشعور طبقہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سماج کی سائنسی اور علمی تحقیق کرتے ہیں کہ ان سماجی امتیاز، معاشی نابرابری کی وجوہات کیا ہیں۔ اگر ہم انسانی تاریخ کے پیشروں اور باشعور طبقوں کی تحقیق کریں تو ہمیں ایسے انسان ملیں گے جن کے علم اور فلسفے نے دنیا کے مظلوم طبقات اور قوموں کی آزادی کیلے ایک نجات کا راستہ دے دیا۔
ان کا ایک نام جرمنی میں کارل مارکس کا نام ہے جو اپنے جرمن سماج کا تحقیق کر کے جرمن حکومت کے ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور جرمن حکومت نے ان کو دربدر کردیا اور بعد میں کارل مارکس نے برطانیہ میں پناہ لی۔ پھر بھی مارکس نے اپنی ایمانداری،سچائی، بہادری نہیں چھوڑی اور اس نے اپنے آپ میں یہ فیصلہ کیا کہ میں سماجی اور معاشی ناانصافیوں کے لکھوں گا اور وہ مستقل مزاجی سے ڈٹے رہے۔ اس نے اپنا کام جاری رکھا اور برطانیہ کی سماجی اور معاشی تحقیق جاری رکھی حتاکہ مارکس کے مسلسل کام کی وجہ سے ان کے بچے بھوک سے نڈھال ہوگہے اور اس کے پاس بچوں کی کفن کے پیسے نہیں تھی۔ چونکہ اس وقت برطانیہ میں صنعتی انقلاب کا دور تھا اور سرمایہ داری نظام ابھر رہا تھا اور مارکس نےان خاص مادی حالات کے تحت سرمایہ داری نظام کا مطالعہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کیسے سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کرتا ہے اورر مزدور دن میں ان کارخانوں میں ۱۵ گھنٹوں تک کام کرتے ہیں اور ان کو اس قد کم اجرت ملتی ہے کہ وہ صرف زندہ رہیں اور پھر ہر روز پھر سرمایہ دار کیلے کام کرتے رہیں اور سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتا جائے۔ تو مارکس نے اس معاشی ناانصافی کیخلاف لکھا کہ یہ نظام نا انصافی اور نا برابری کے بنیاد پر کھڑا ہے اور مزدوروں کا استحصال کر رہا ہے اور سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے اور مارکس نے قدرزائد کا تھیوری پیش کی۔ اس طرح مارکس نے مزدور طبقہ کو ایک انقلابی راستہ دیا کہ اپنے حقوق کے لئے ان کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور انقلاب کے ذریعے بورزوازی ریاست کا تختہ الٹ دیں اور مزدوروں کو اپنا پرولتاریہ کی آمریت قائم کرنی چاہئے او ساری ذرائع پیداوار یعنی بڑے پیمانے کی صنعت، بینکوں، زمینوں، مشینوں کو جو لاتعداد منافع کماتے ہیں اور استحصال کا ذریعہ ہیں اور ان کو ریاست کی تحویل میں دیا جائے۔ مارکس کے اس نظریے نے سارے دنیا کے مظلوم طبقوں اس قدر اثرانداز کیا کہ شاید انسانی تاریخ میں کسی فلاسفر نے کیا ہو ۔ بیسویں صدی میں دنیا کا ایک تہائی حصہ کمیونسٹ انقلاب کی جانب راغب ہوا۔ حتاکہ بلوچ نوجوانوں نے بھی کارل مارکس کے کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔
بعدازاں روس میں ایک پیشرو اور باشعور طبقہ پیدا ہوا جو روس میں زار شاہی حکومت کے سماجی ناانصافیوں کے خلاف اٹھا۔ وہ لینن اور اسٹالن تھے اور بعد میں بالشویک پارٹی کی بنیاد ڈالی اور پہلی بار انسانی تاریخ میں ۱۹۱۷ سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اورمزدوروں کی ریاست قائم ہوئی۔
عین اسی طرح چین میں بھی ایک پیشرو اور باشعور طبقہ پیدا ہوا وہ ماؤزتنگ اور چین میں کمیونسٹ پارٹی کا قیام شکل میں سامنے آیا جس نے چین میں چینی قوم کو مختلف سامراجیوں کے قبضے سے آزادی اور چین میں ایک کمیونسٹ انقلاب ۱۹۲۷ میں برپا کی اورآخر کار ۱۹۴۹ میں ماوزُتنگ نے کمیونسٹ پارٹی کے رہبری میں اقتدار اپنے قبضے میں لیکر چین کو سامراجیوں سے آزاد کردیا۔
بلکل اسی طرح بلوچ قوم میں بھی ایک پیشرو اور باشعور طبقے کی پیدائش ہوئی جس نے بلوچ قوم کی اس طبقاتی امتیاز، قومی غلامی، معاشی بدحالی کا علمی اور سائنسی تحقیق کرتے ہوئے یہ نتائج اخذ کی ہے ان تمام مسائل کا ذمہ دار پاکستانی ریاست کا بلوچستان پر جبری قبضہ ہے۔ یہ پیشرو اور باشعور طبقہ وہ بلوچ نوجوانوں کا طبقہ تھا جنہوں نے ۲۶ نومبر ۱۹۶۷میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO)کی بنیاد ڈال دی اور بی ایس او کا قیام بلوچستان میں ان خاص قومی اور عالمی حالات کا تقاضا تھا کہ ایک ایسے پیشروں اور باشعور طبقوں کی ایسی تنظیم کی بنیاد ڈالی جائے جوکہ بلوچستان میں پاکستانی جبری قبضے کے خلاف بلوچ قوم کو شعور دے سکیں اور بلوچ قوم کو اپنے آزادی کے لیے جہدوجد کیلے تیار کرسکیں۔
ان خاص عالمی حالات یعنی روس میں سوشلسٹ انقلاب اور سویت یونین کا قیام اور چین میں کمیونسٹ انقلاب کا برپا ہونا نے بھی بلوچ سماج پر بھی اثر انداز ہوئے۔ کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے جہاں کہیں بھی دنیا میں مظلوم قومیں اور مظلوم طبقوں نے اپنے آزادی کیلےانقلاب برپا کرتے ہیں تو اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں اور دیگر اقوام ان کے تجربات سےسیکھتے ہیں اور پھر اپنے قوم کو آزاد کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔
بی ایس او نے بھی ان حالات میں اپنے قومی آزادی کی جہدوجہد کے حوالے مارکسی فلسفے اور کمیونسٹ تھیوری کو ایک حقیقی اور سائنسی علم قرار دے کر اپنے جہدوجہدکو آگے بڑھا دیا۔ بی ایس او نے ان حالات میں بلوچستان میں اتنی مقبولیت حاصل کی کہ شائد بلوچ تاریخ میں کسی بھی طلبا تنظیم اور پارٹی نے نہیں کی۔ اور آج اکثریت بلوچ سیاستدان اور بلوچ قوم پرست بی ایس او کے پیداوار ہیں۔ بی ایس او کی جدوجہد کافی دہایوں تک جاری رہا اور پھر دنیا کے عالمی حالات تبدیل ہوگئے اور ۱۹۵۷ میں سویت یونین میں اسٹالن کے وفات کے بعد ترمیم پرستوں نے کمیونسٹ پارٹی پر قبضہ کیا اور سویت یونین کو سرمایادار داری نظام کی طرف لے گئے اور بعد میں ۱۹۹۱ میں سویت یونین کا خاتمہ ہوا اور بہت سے ریاستوں نے اپنے کو آزاد کرا دیا۔ دوسری جانب ۱۹۷۶ میں چین میں ماؤزے تنگ کے وفات کے بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی پر ترمیم پرستوں نے قبضہ جمایا اور چین کو سرمایہ داری کی طرف لے گئے۔ ان عالمی حالات کے تبدیلی نے بلوچ قومی جدوجہد پر اثر ڈال دی اور ان حالات میں ایک اور پیشرو اور باشعور طبقہ نمودار ہوا جنہوں نے ان حالات کا سائنسی اور علمی تجزیہ کیا ان میں ایک سرفہرست نام شہید فدا احمد بلوچ تھا جو ایک عظیم مارکسی استاد، مفکر، ترقی پسند قوم پرست اور بین الاقوامیت پرست تھا تو اس نے بلوچ قومی جدوجہد کا باریک بینی سے تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتائج اخذ کیا کہ صرف طلبا تنظیم یعنی بی ایس او بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں کافی نہیں اسی لئے انہوں نے ایک بلوچ قومی پارٹی یعنی بی این وائی ایم (BNYM) کی ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ میں بنیاد ڈال دی اور بعد میں شہید غلام محمد اور ان کےساتھیوں نے بی این ایم (BNM) کا نام سے کاروان جاری رکھا۔ بی این ایم بلوچستان کی آزادی پسند سیاسی پارٹی ہے اور اس نے بلوچستان کی آزادی کیلے یہ احساس ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائی ہے کہ وہ ہر کھٹن راہ میں بلوچ قوم کی آزادی کیلے اپنے جمہوری اور سیاسی جہدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور یہ پیشروں اورباشعور طبقوں کا لیڈرشپ ہے جو کہ بلوچ قوم کے محنت کش طبقات اور عوام سے مربوط ہے اور بلوچستان کی آزادی کے لیے ہراولدستہ کی کردار ادا کر رہے ہیں۔
حال ہی میں فری بلوچستان موومنٹ اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کا قیام ان مادی حالات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بلوچ قوم کی اس آزادی کی جدوجہد میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی اشد ضرورت ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کو بلوچستان کی آزادی کیلے آگاہ کریں۔ اور یہ پارٹیاں اپنے طریقوں سے بلوچستان کی آزادی کیلے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کیونکہ سیاسی پارٹی ریاست کی مانند ہوتا ہے۔ جوکہ سخت قانون، نظم و ضبط اور ڈسپلن کا پاپند ہوتا ہے۔ تو ان سیاسی پارٹیوں کا فرض ہے کہ آزاد بلوچستان کی ریاست کا ان بلوچستان کی پہاڑوں میں اعلان کریں جہاں بلوچ سرمچار اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ پہاڑوں کی طرف سے پیشقدمی کرتے ہوے شہروں کو اپنے قبضہ میں لے لیں۔ اس پر غوروفکر کرنے ضرورت ہے تمام سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو ابھاریں اور ان آزاد علاقوں میں اپنی سیاست، معیشت اور ثقافت کا تجربہ کریں۔
اس قومی آزادی کی جہدو جہد میں پیشہ ورانہ انقلابیوں اور کارکنوں کی اشد ضرورت ہے کہ وہ چوبیسوں گھنٹے اس قومی آزادی کی تحریک کی رہبری کریں اور شب و روز اپنے اسٹڈی سرکلز میں انسانی تاریخ کے انقلابات کا مطالعہ کریں اور اپنے قومی جدوجہد کو اکیسویں صدی کی ضرورت کے مطابق جاری رکھیں۔
کیونکہ جب تک قومی آزادی کی جنگ کو سیاسی پارٹی کی رہبری میسر نہیں ہوگی تو خالص مسلح جنگ کے ذریعہ اپنے اہداف تک پہنچنا کافی کٹھن اور مشکل گزار ہوگا۔ آج اکیسویں صدی میں دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گیا ہے اور دنیا میں کہیں بھی قومی اور جمہوری تحریک ابھری گی تو سارے دنیا میں اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یقیناً یہ ساری سیاسی پارٹیاں اپنے طریقوں سے بلوچ قومی آزادی کی جنگ کو اجاگر کررہے رہیں لیکن انکو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچ قومی آزادی کی جنگ کی خاطر اندرونی طور پر حالات بہت ہی سازگار ہیں کیونکہ پاکستان اپنے تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور جلد یا بدیر دیوالیہ کا شکار ہوتا جائے گا ان مادی حالات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ان پچھلے بیس سالوں میں بلوچ قومی جنگ کی وجہ سے سارے پاکستان کے مظلوم قوموں پر کافی زیادہ اثر ڈالدی ہے کہ اس طاقتور ریاست کے خلاف جنگ ممکن ہے اور دوسری طرف سندھی اور پشتون مظلوم قوموں نے بھی اپنے آزادی کی جنگ کا اعلان کیا ہے۔ اور وہ اپنے طریقوں سے اپنے آزادی کی جہدوجہد کر رہیں ہیں۔ ابھی عالمی طور پر بلوچ قومی آزادی کی جنگ کے لیے حالات سازگار ہو رہے ہیں کیونکہ دیارغیر میں موجود سیاسی پارٹیوں کی مسلسل جدوجہد نے بلوچ قوی آزادی کی آواز کو عالمی ایوانوں میں پہنچا دیا ہے اور عالمی طاقتوں کو اطلاع دی ہے کہ پاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا ہے اور بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہا ہے۔
ان حالات میں بلوچ قومی جنگ کا نشانہ چینی سامراج بن سکتا ہے۔ چونکہ چین ایک سامراجی اور اور سرمایہ دار ملک بنکر ابھرا رہا ہے اور بلوچستان میں ملین ڈالرز کا سرمایہ لگارہا ہے جو گوادر میں (سی پیک ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان مادی حالات کے تبدیلی اور چینی سامراج کا بلوچستان میں آنا بھی بلوچ قومی جنگ کے تدبیر اور حکمت عملی بھی تبدیل ہوسکتے ہیں اور یہ تضادات ایک اہم بنیادی تضاد میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اور اُس بنیادی تضاد کی پہچان کرنا اور اپنے قومی جنگ کو اس کے مطابق سمت دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بیک وقت چینی سامراج اور پنجابی سامراج سے جنگ کرنے میں مشکلات پیش آ سکتے ہیں۔ چونکہ جو عالمی طاقتیں امریکہ، برطانیہ اور بہت سی یورپی طاقتیں ہیں جو کہ سامراجیت اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے بنیادپر کھڑے ہیں اور ان کی سارے معشیت تیسری دنیا پر منحصر ہے اور ان تیسری دنیا میں لاتعداد منافع کماتے ہیں۔ تو اس لیے وہ ان تیسری دنیا کے ریاستوں سے اپنے اچھے تعلقات بناتے ہیں۔ اور اس وقت دنیا میں کوئی حقیقی عوامی اور انقلابی ریاست نہیں ہیں کہ وہ دنیا میں جاری قومی اور جمہوری تحریکوں کی حمایت کریں۔تو اس لیے امریکہ، برطانیہ اور ان یورپی طاقتوں پر اتنا بھروسہ نہیں کرنا چاہے کہ بلوچستان کو آزاد کرانے میں کردار ادا کرینگے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے اپنی قومی جنگ اور عوام پر بھروسہ کیا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں