فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اخلاقی پولیس کی کارروائیاں ختم کر دی گئی ہیں۔
ایران کی قدامت پسند حکومت نے ملک میں دو ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد اخلاقی پولیس ختم کر دی ہے۔
الجزیرہ ڈاٹ کام کے مطابق ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر المنتظری نے کہا ہے کہ ملک میں اخلاقی پولیس کی کارروائیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے ہفتے کو ایک تقریب سے خطاب کیا جس میں حالیہ مظاہروں کے دوران ہائبرڈ جنگ کے بارے میں بتایا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اخلاقی پولیس کی کارروائیاں ختم کر دی گئی ہیں۔
ایران میں مظاہروں کا سلسلہ ملک میں خواتین کے لیے لباس کے سخت ضوابط کی مبینہ خلاف ورزی پر اخلاقی پولیس کی جانب سے گرفتار کی گئی مہسا امینی نامی خاتون کی 6 ستمبر کو دوران حراست موت کے بعد شروع ہوا تھا۔
ایرانی حکام نے خواتین کی زیر قیادت ہونے والے مظاہروں کو ’فسادات‘ قرار دیتے ہوئے ان کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ کا الزام لگایا تھا۔
ایران کے خبر رساں ادارے اسنا کے مطابق اٹارنی جنرل محمد جعفر المنتظری کا کہنا ہے کہ اخلاقی پولیس کا عدلیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
اٹارنی کے مطابق اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے اسی جگہ روک دیا گیا جہاں سے ماضی میں اس کا آغاز ہوا تھا۔‘ وہ مبینہ طور پر اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ اخلاقی پولیس کو کیوں ختم کیا گیا۔
کوئی دوسری تصدیق نہیں ہوئی کہ گشت کرنے والی پولیس کے یونٹ جنہیں سرکاری طور پر معاشرے میں ’اخلاقی سلامتی‘ کی ذمہ داری دی گئی ہے، انہیں ختم کر دیا گیا ہے، نہ ہی منتظری نے یہ بتایا کہ اخلاقی پولیس کو غیر معینہ مدت کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔
اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ قانون جس کے تحت خواتین کے لیے مخصوص لباس زیب تن کرنا لازمی ہے، اسے ختم کر دیا جائے گا۔
ایران کی اخلاقی پولیس، جسے رسمی طور پر گشت ارشاد یا ’رہنما پیٹرول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں قائم کی گئی تھی، اور اس کا مقصد ’حیا اور پردے‘ کے کلچر کو فروغ دینا تھا جس کے تحت خواتین کے لیے سر ڈھانپا لازمی ہے۔
اخلاقی پولیس نے 2006 میں گشت کرنا شروع کیا۔
فورس کے خاتمے کا اعلان منتظری کے بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمان اور عدلیہ حجاب سے متعلق قانون پر کام کر رہی ہے کہ آیا اس (خواتین کے سر کو ڈھانپنے سے متعلق) قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ہفتے کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیان میں کہا تھا کہ ایران کی جمہوری اور اسلامی بنیادیں اس کے آئین میں ہیں۔ ’لیکن آئین کو نافذ کرنے کے ایسے موجود ہیں جن میں لچک ہو۔‘