پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے سیکٹر آئی ٹین میں دھماکے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں ہائی الرٹ کی وجہ سے چیکنگ چل رہی تھی اور اس دورانپولیس اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کو چیکنگ کے لیے روکا۔
انہوں نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ گاڑی رکتے ہی خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور ابتدائی اطلاعات کے مطابقہیڈ کانسٹیبل عدیل حسین ہلاک ہو گیا۔
اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز سہیل ظفر چٹھہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صبح سوا دس بجے ایک مشکوکٹیکسی آ رہی تھی جس میں ایک مرد اور ایک عورت سوار تھی، پولیس کے ایگل اسکواڈ نے مشکوک سمجھتے ہوئے انہیں روکا اور انکی تلاشی لی۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی مشکوک افراد کی جامہ تلاشی جاری تھی کہ ایک لمبے بالوں والا لڑکا واپس گاڑی میں آیا اور اس نے گاڑی کودھماکے سے اڑا دیا جس سے دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں چار پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق گاڑی میں ایک مرد اور ایک عورت سوار تھی جن کے جسم کے اعضا ہم نے اکٹھا کر لیےہیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارے پولیس اہلکار نے گاڑی کا دروازہ کھول کر رکھا ہوا تھا اور انمشکوک افراد کو گاڑی کے اندر سے جانے سے روک رہا تھا لیکن لمبے بالوں والے شخص نے گاڑی کے اندر مکمل داخل ہوئے بغیر ہیایک بٹن دبایا جس سے دھماکا ہو گیا۔
ایک اور ٹوئٹ میں اسلام آباد پولیس نے دھماکے کے سبب شہریوں کو متبادل راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
دارالحکومت میں اتنی مقدار میں اسلحہ تشویش ناک ہے، وزیر داخلہ
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ریڈزون اور اسلام آباد وفاقی علاقے میں جن میں تھریٹ الرٹ رہتا ہے مگر اس طرح کیکوئی خاص بات نہیں تھی کہ اسلحے سے بھری گاڑی آئے گی۔
نجی ٹی وی جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ گاڑی میں اتنی مقدار میں اسلحہ تشویش ناک ہے اس لیےہمیں سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے اور اس سلسلے میں شہریوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ گاڑیوں کی مکملچیکنگ کی جائے گی اور وہ پریشانی برداشت کرنی چاہیے تاکہ اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے سیف سٹی منصوبہ کباڑ خانہ بنایا ہوا تھا لیکن اس سال وزیراعظم نے رقم جاری کی اور چارہزار کیمرے لگائے جس سے صرف 35 فیصد شہر کا احاطہ کیا گیا ہے، کیمروں کو 100فیصد شہر کا احاطہ کرنا چاہیے اور اسسلسلے میں کام کر رہے ہیں۔
اس سے قبل دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تحقیقات شروع کردی تھیں۔
دھماکے کے بعد حملہ آورکے اعضا جائے وقوع پر پھیل گئے جبکہ دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی، دھماکے کی شدت کی وجہسے اطراف کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی اسلام آباد پولیس نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایگل اسکواڈ نے خاص طور پرخیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد حفاظتی اقدام کے تحت 2ہزار سے زائد مشکوک افراد، موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو چیک کیا۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ شہر میں امن و امان یا دہشت گردی کا کوئی واقعہرونما نہ ہو جبکہ شہریوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور مشتبہ افراد کے بارے میں مطلع کریں۔
اس کے علاوہ پولیس نے اپنے ایک علیحدہ بیان میں کہا تھا کہ وہ کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور پولیس کی مدد کےلیے شہر میں ایف سی کو تعینات کیا گیا ہے۔