گام
تحریر: ظہیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
موجودہ دور میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کو بلوچستان کی سب سے مضبوط اور متحرک طالب علم سیاسی تنظیم سمجھا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ تنظیم نے نہ صرف بلوچ طالب علموں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا ہے بلکہ اپنے لٹریچر کی بنیاد پر بلوچ طالب علموں کو نیشنلزم کی بنیاد پر سیاسی تربیت کے گر سکھا کر انہیں مستقبل کا قومی سیاسی رہنماء بنانے کی تک و دو میں بھی مصروف عمل ہے-
دو ہزار نو میں تشکیل پانے کے بعد بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے طالب علموں کی تعلیمی سرگرمیوں میں نکھار پیدا کرنے اور بلوچ سماج میں تعمیری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں فروغ دینے کی نہایت اہم کوششیں کی ہے-
بلوچستان کتاب کارواں،تعلیمی سیمینار اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں سے صحت مندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا جس کی وجہ سے بلوچ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اس کارواں کا حصہ بنی اور آج یہ کارواں بلوچ طالب علموں کے لئے ایک امید کی کرن ثابت ہوئی ہے-
نومبر دو ہزار اٹھارہ میں باقاعدہ کونسل سیشن کا انعقاد کرکے ایکشن کمیٹی نے ایک مکمل تنظیمی شکل اختیار کی-اپنے تنظیمی مقاصد کے مطابق باقاعدہ ایک تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا اور تنظیم کو وہاں تک رسائی دی گئی جہاں کئی عرصوں سے سیاست منجمد ہوگئی تھی-تنظیم نے ایک مرتبہ پھر اپنے سیاسی اور تعلیمی پروگرامز کے ذریعے بلوچستان میں امید کی کرن کو جنم دیا ہے-
تنظیم کے اولین کونسل سیشن کے بعد تنظیم نے بلوچ طالب علموں اور بلوچ سماج کو نوشت کا تحفہ دیا جو خالص قومی زبان بلوچی اور براہوی زبان پر مشتمل ہے- نوشت کا اجراء واقعی ایک بہترین فیصلہ اور نوجوانوں کی سیاسی تربیت کے لئے ایک لائق تحسین اقدام تھا جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے-
آج تنظیم بلوچستان کے قریہ قریہ ،شہر شہر علم کے شمعیں روشن کرکے بلوچ سماج کو روشنی عطا کر رہی ہے – بساک کے آئین میں بلوچ و براہوی زبان کی ترقی و ترویج کا جو اعادہ کیا گیا ہے تنظیم انہی پالیسسیوں پر کاربند رہ کر بلوچ طالب علموں اور بلوچ سماج کو خالص قومی زبان میں لٹریچر فراہم کررہی ہے- بساک اپنے قومی زبان میں لٹریچر مہیا کرکے سیاسی و ادبی ادارے کا کردار ادا کررہی ہے جو ایک مثبت اور تعمیری عمل ہے اور یہ عمل نہ صرف قومی زبان کو ترقی دیگی بلکہ بلوچ طالب علموں کو سیاسی طور پر بھی مددگار ثابت ہوگی-
بساک نے نوشت کا اجرا کیا جس کے چار ایڈیشن شائع ہوئے ہیں جو بلوچی اور براہوی زبانوں میں شائع کئے گئے ہیں،نوشت کے چوتھے ایڈیشن میں جتنے بھی کالم ہے وہ قوم پرستی کے موضوع پر ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ بساک ایک مکمل بلوچ قوم پرست سیاسی تنظیم ہے-
نوشت کے بعد تنظیم نے موجودہ دور میں پرائمری ،ثانوی اور سیکنڈری سطح کے ان بچوں کے لئے ایک بہترین قدم اٹھا کر ایک تاریخی فیصلہ لیا ہے -اس فیصلے کے مستقبل میں بلوچ سماج پر دورس نتائج مرتب ہونگے کیونکہ بلوچستان کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی تنظیم نے بچوں کے لئے میگزین کے اجرے کا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس سے بلوچ بچے اپنی قومی زبان،قومی تاریخ،قومی مزاحمت،قومی تہذیب و تمدن اور بلوچ قوم کی شخصیات سے واقف ہوسکیں-
ایکشن کمیٹی نے حال ہی میں مستونگ میں منعقدہ لٹریچر فیسٹیول میں گام کی تقریب رونمائی کرکے بلوچ بچوں کو ایک قیمتی تحفہ دیا ہے-یہ قیمتی تحفہ یقیننا بلوچ سماج کی بنیادوں کو توانا اور طاقت فراہم کریگی-
آخر میں یہی کہوں گا کہ بلوچ باشعور طالب علم بساک کے شانہ بشانہ قومی زبان کی ترقی و ترویج کے علاوہ بلوچ سماج میں نیشنلزم کے جذبے کو پروان چڑھانے کی جدوجہد کریں اور تنظیم کے ساتھ ملکر کام کریں کیونکہ بساک نہ صرف ایک ادارے کا نام ہے بلکہ بساک بلوچ سماج میں ایک امید کا نام بن چکی ہے- امید کو مضبوط کریں تو مقصد کی تکیمل آسان ہوجاتی ہے- کہتے ہیں کہ امید پر ہی دنیا قائم ہے -آج بساک جیسی تنظیموں کی جدوجہد سے ہی بلوچ سماج میں امید کی فضا قائم ہے اور یہ امید روز بروز مضبوط ہو کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کررہا ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر انسان نظریاتی و کرداری حوالے سے مضبوط بن جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں