کیچ: فورسز کی اذیت سے بچنے کے لئے نوجوان نے خودکشی کرلی

564

چاکر مجید کا واقعہ خودکشی نہیں بلکہ ریاستی قتل ہے۔ یہ کہنا ہے ضلع کیچ کے علاقے سرنکن کے رہائشی چاکر مجید کے قریبی رشتہ داروں کا۔

گذشتہ روز بلوچستان کے علاقے کیچ سرنکن میں ایک نوجوان چاکر مجید نے خودکشی کرکے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ تاہم چاکر کے رشہ دار الزام عائد کررہے ہیں کہ ریاستی فورسز نے چاکرکو اس قدر ذہنی اذیت کا شکار بنایا تھا کہ اسکے پاس خودکشی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں بچا تھا۔

تین سال قبل مارچ دوہزار انیس کو پاکستانی فورسز نے سرنکن میں چھاپہ مارکر چاکرکو حراست میں لے کر لاپتہ کیا تھا۔ جو دس مہینوں تک لاپتہ ہونے بعد بازیاب ہوا۔

چاکر کے ایک قریبی رشتہ دار نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چاکر کی بازیابی کے بعد فورسز روزانہ چاکر کو اپنے کیمپ بلاکر بلاجواز اس کو ذہنی اذیت کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چاکر نے اس بات کا زکر اپنے اہلخانہ سے پہلے بھی کیا تھا کہ فورسز کے اہلکار کو اسے متواتر تنگ کررہے ہیں کہ وہ ان کے خفیہ ایجنسیوں کے لئے کام کرے۔ تاہم چاکر منع کرتا رہا ہے جبکہ فورسز بدستور اس کو تنگ کرتے رہے ہیں۔

قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ خودکشی کے روز فورسز نے چاکرکو اپنے کیمپ بلاکر اس کے موبائل کو بھی چھین لیا تھا اور اس کو ایک اور موبائل دیا تھا جس کو چاکر نے خودکشی سے پہلے توڑ دیا تھا۔

قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ فورسز نے انہیں کوئی ایسی شے دی تھی جس سے فورسز اپنا کوئی بڑا کام انجام دینا چاہتے تھے مگر اس کام کو کرنے سے چاکر نے خودکشی کو ترجیح دی تھی۔

خیال رہے کہ چاکر کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہیں جس میں کئی افراد کا تعلق بلوچ قوم پرست تنظیم اور پارٹیوں سے ہے، اسی وجہ سے اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد ہر وقت ریاستی اجتماعی سزا کے نشانہ پر ہیں۔

گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں پاکستانی فورسز نے اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں میں چھاپہ مارکر چھ افراد کو جبری گمشدگی کا شکار بناکر نامعلوم مقام منتقل کردیا تھا۔