بدھ کے روز بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے طلباء نے اپنے جبری لاپتہ ساتھیوں کی عدم بازیابی کے خلاف دو روزہ احتجاجی کیمپ قائم کرتے ہوئے سہیل اور فصیح بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی جس میں طلباء و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرے بازی کی۔
طلباء کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال یکم نومبر کو جامعہ بلوچستان کے احاطے سے دن دہاڑے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے لیکن تاحال حکومت ان کو بازیاب کروانے میں ناکام رہی ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ساتھیوں کی جامعہ کے اندر سے گمشدگی کے فوراً بعد جامعہ انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا لیکن جامعہ انتظامیہ نے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جس کے بعد طلباء نے احتجاج کا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے قریب ڈیڑھ مہینہ جامعہ کے اندر دھرنا دیا اور بلوچستان بھر سمیت ملک کے تعلیمی اداروں میں کلاس بائیکاٹ کرکے پرامن احتجاج بھی ریکارڈ کیا حکومتی وزیر کی سربراہی میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی بنی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذاکراتی یقین دہانی کے باجود بھی طلباء کو بازیاب کرانے میں ناکام رہی اور نہ ہی اس کے بعد حکومتی کمیٹی کی جانب سے اس معاملے پر کوئی پیشرفت کی گئی ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں سی ٹی ڈی کی جانب سے درجن بھر نوجوانوں کی جعلی مقابلوں میں قتل نے طالبعلموں کو مزید بے یقینی کی صورتحال میں مبتلاء کردیا ہے سہیل اور فصیح کی زندگی کے حوالے سے انتہائی تشویش ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت وقت اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے دونوں طلبا کو فی الفور بازیاب کروائے، اگر ملکی آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں منظرعام پر لاکر عدالت میں پیش کرے۔
بی ایس او کے رہنماؤں نے انسانی حقوق کی عالمی اداروں سے بلوچ طلبا کی نسلی پروفائلنگ، جبری گمشدگیوں سمیت ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے تمام تر غیر انسانی سلوک کا نوٹس لینے کی بھی اپیل کی ہے۔