کمانڈر سنگت سلیمان عرف شیہک
تحریر: گورگین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شہر گجر سے دور خوبصورت پہاڑوں کے اوپر بموں، گولیوں اور توپوں کی آوازیں گونج رہی تھیں،لوگ ڈر سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے، ماؤں کے منہ پر صرف ایک ہی جملہ تھا” یااللہ ہمارے پیاروں کو بحفاظت دوبارہ ہمیں دیکھنے کا موقع دے”
بچے، بوڑھے مرد اور عورتیں اپنے اللہ اور نبی سے نیک دعا کررہے تھے، پورا شہر، مشکے، غم و غصے میں تھا،لوگ بھوک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، دعائیں مانگ رہے تھے زیارتوں اور مسجدوں میں قرآن پڑھنے لگے تھے، بازار کے سارے دکان بند تھے ، بزگر اور چرواہے اپنے گھر آئے تھے۔ قابض فوج کے ہیلی کاپٹروں کی آواز نزدیک سے معلوم ہونے لگی، اچانک لوگ چلا چلا کر بول رہے تھے کہ ” پاکستان مردہ باد!”.میں ابھی اسکول سے آیا تھا، میں نے ابھی اپنی وردی تبدیل نہیں کی تھی۔ لیکن دماغ میں بس ایک ہی خیال تھا کہ ہمارے پیاروں کا کیا حال ہوگا کہ جب ہیلی کاپٹریں صبح سے پہاڑوں کی طرف شیلنگ کررہے تھے۔
اکثر پاکستانی قابض فوج کی ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے معصوم لوگ مارے جاتے ہیں، چرواہوں کو نشانہ بناکر پھر کہتے کہ ہم لوگوں نے سرمچاروں کو ماردیا ہے۔ پاکستانی دہشتگرد فوج کا رویہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ دیہاتی علاقوں میں اکثر ایسے واقع پیش آتے ہیں کہ وہاں فوج چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کو شوٹ کرتے ہیں اور یہاں تک جانوروں تک کو نہیں چھوڑتے۔
اسی دن مشکے میہی یعنی بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نزر صاحب کے علاقے میں ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کی وجہ سے کئی معصوم لوگ شہید ہوئے۔
میں یہی شش و پنج تھا کہ ہمارے معصوم لوگوں کا کیا حال ہوگا کہ وہ پہاڑوں کے درمیان ہزار سالوں سے رہ رہے ہیں۔ لیکن اب وہاں کے لوگوں کو چین نہیں ملتا اور لوگوں کو وہاں سے مائیگریشن کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ یہ جنگ 30 جون 2015 کو ہوا تھا، ہمیں پتہ چلا کہ وہاں ہمارے ریجنل کمانڈر سلیمان عرف شیہک باقی ساتھیوں یعنی سفر خان، رمضان، ذاکر بلوچ،علم خان،فرہاد رحمت،گاجی خان، ارباب بلوچ اور اسلام بلوچ نے جام شہادت نوش کی ہے، تو دل و جان میں جلن محسوس ہونے لگی، آنکھوں سے آنسو اور کان بالکل بند ہوئے تھے، ناک سے سانس کو دشواری ہونے لگا، دل کی دھڑکن کی وجہ سے پورے جسم میں تھکاوٹ محسوس ہونے لگا، اور کچھ دکھائی نہیں دینے لگا۔
ایسی سنگین ترین حالات ہمارے لیے مسلسل آتے رہے ہیں، سلیمان عرف شیئک اور باقی جانثار انقلابی ساتھیوں کی شہادت سے ہماری ماؤں اور بہنوں کی آنسوؤں سے زمین نم ہو کر رہ گیا۔
شہید سلیمان ہمارے لیے ایک درسگاہ تھے، آپ نے بلوچ ماں دھرتی کیلیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا، آپ کا فلسفہ و مستقل مزاجی کے مثالیں ہمیشہ لیئے رہینگے، آپ صرف مشکے کے نہیں بلکہ پورے بلوچستان کی مختلف جگہوں پر جنگی حملوں میں کمان سنبھال کر دشمن کو سبق سکھاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ آپ ایک وژنری شخصیت تھے، قوم و دیش کی حفاظت کی خاطر اپنے خاندان کو چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف اپنے گوریلہ سرمچاروں کے ساتھ دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ آپ ہمیشہ دلوں پر انقلابی نشان لگا کر ہم سے جدا ہوئے لیکن آپ کا نظریہ زندہ ہے، آپ نمیران ہیں۔ بس یہی کہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں۔
سلیمان عرف شیہک کا فلسفہ خاص کر نئے ابھرنے والے نڈر جنگی جانثاروں کیلیے ایک مثال بن کر قائم ہوا ہے تاکہ ہر سرمچار یہ ضرور سمجھے کہ بندہ جتنا بھی قوت و ارادے کے ساتھ لڑتا ہے اتنی ہی زیادہ وہ دشمن کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔ بلوچ سرزمین کے بہادر جوان ہمیشہ اپنے قوم و دیش کی آزادی کے لیے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔
شہید سلیمان مشکے سے تعلق رکھتے، قوم و دیش کی آزادی کیلیے 2006 سے بلوچستان کے آزادی پسند گوریلہ بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر صاحب کے ہمراہ رہے،ان کا تعلق مشکے میہی سے تھا۔ سلیمان عرف شیہک کی ویڑیو وائرل ہوئی جہاں مختلف لوگوں کو ہمت و حوصلہ ملا۔
چم داری ئُُ چم جہلی چم جہلاں مراداں بات
سربرزئُُ بلندانی سربُرزئُُ بلنداں بات
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں