ڈیرہ جات میں حریت پسندی | حصہ اول – واھگ

633

ڈیرہ جات میں حریت پسندی

تحریر۔ واھگ

حصہ اول

دی بلوچستان پوسٹ

ڈیرہ جات کے بلوچ خود اپنے آپ کو کس انداز سے دیکھتے ہیں، یہ ایک اور نقطہ نگاہ ہے اور ڈیرہ جات کے آس پاس کے اقوام بلوچ قوم کو کس نظریہ سے دیکھتے ہیں، یہ دوسرا نقطہ نگاہ ہے مگر اس کے علاوہ تاریخی طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ سامراجی قوتیں یعنی انگریزی سامراج اور سکھ قبضہ گیروں کا ان کے بارے میں رویہ اور تصور کیا رہے ہیں۔

مغلیہ دور کے زوال کے بعد ہندوستانی معاشرہ طوائف الملوکی کی زد میں آگیا تو مغل حکمرانوں کی مرکزی حکومت اور قوت کا سفینہ طوفان میں بکھر کر تباہ و برباد ہو رہا تھا، مغلوں کی ریاست مکمل طور پر انتشار و زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ ہندوستان میں ہر طرف سے سازشوں اور بغاوتوں نے سر اٹھا رکھا تھا سماجی، سیاسی اور معاشرتی توڑ پھوڑ میں ہندوستان سکھ حکمرانی کے بعد انگریزوں کے زیر تسلط میں آ گیا۔

جس کے اثرات سے ایک وسیع و عریض بلوچوں کا وطن بھی محفوظ نہ رہ سکا اور اسی لاعلاج بیماری نے بلوچ قوم کے معاشرتی، سیاسی ،نفسیاتی اور بلوچ تہذیب کو دیمک کی طرح چاٹ کر مکمل اس کا صفایا کر دیا، جس کی وجہ سے یہاں کے رہنے والے بلوچ قبائل نے ٹکر، تمن اور برادریوں میں تقسیم ہو کر قومیت کو خیر آباد کہہ دیا لیکن پھر بھی بلوچ ماؤں نے بلوچیت جیسی مقدس دامنِ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور آپ اپنے بچوں کو بیبگر رند اور بالاچ گورگیج کے قصے سنا کر اپنے حقیقی قومی فریضہ نبھا کر اپنے بچوں کو ظلم کے سامنے قربان ہونے کا درس دیا۔

انگریزوں کے قبضہ گیریت کے خلاف ڈیرہ جات کے بلوچ اکثر بر سر پیکار رہتے تھے، کئی موقعوں پر انگریز فوج کو جاری ضرب لگائے گئے۔ غیور بلوچ قوم میں ایسے افراد بھی ہو کرگزرے ہیں جنہوں نے وائسرائے ہند کے قریبی ساتھیوں اور نمائندوں کو بلوچ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر یرغمال بنایا اور قبضہ گیریت کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔

بلوچ تاریخ اُن شخصیات کو کوڑا خان کھوسہ بلوچ ،اسلم خان ملگانی بلوچ ،مگنڑ کلاتی بلوچ ،میرخان کلاچی بلوچ اور کوڑا خان قیصرانی کے نام سے یاد کرتے ہیں، جنہوں نے انگریزوں کے لئے کوہ سلیمان کے بلوچوں پر تسلط جمانا اور ان کے جذبہ حریت کو کچلنا مشکل بنا دیا تھا۔ اس کے لئے انگریزوں نے روایتی طور پر اپنا شاطرانہ ذہن استعمال کیا انہوں نے تمن دارنہ نظام رائج کرکے بلوچ قبائل کو آپس میں لڑانے میں کامیاب ہوئے۔

انگریزوں نے مخصوص حکمت عملی اور مصلحت اندیشی سے کام لے کر ان بلوچ تمن داروں اور سنڈیمنی سرداروں سے متصادم ہونے کی بجائے ان کے معاملات میں عدم مداخلت، مالی مراعات ، دیوانی ، فوجداری اختیارات تمن دار کو تفویض کر کے انھیں اپنا مطیع بنا لیا اور اس کے علاوہ اعزازی مجسٹریٹ کے درجہ اول کے اختیارات بمعہ اہلکار،حوالات وغیرہ جیسی عدالتی نظام عنایت کر کے انھیں سیاسی طور پر مظبوط بنا دیا، اس طرح انگریزی قبضہ گیر نے اپنی قبضہ گیریت کو استحکام بخشا۔

سنڈیمنی سرداروں اور تمن دار نے انگریز قابضین کے ساتھ اپنی وفا کی پوری لاج رکھی اور ان علاقوں میں حریت پسند جذبات کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، گویا بلوچ قوم کی آزادی کی مزاحمتی تحریکوں کو انگریزوں نے ان ضمیر فروش ،وطن فروش اور مراعات یافتہ طبقہ کے ہاتھوں کند خنجر سے دبخ کرنے کی کوشش کی لیکن قبضہ گیروں کی یہ خواہش تاریخ میں کسی بھی موڑ پر ان کے کام نہ آسکی اور ان کو ذلت شکست کا سامنا رہا۔

کوہ سلیمان کے پہاڑوں کے اس پار سوکڑ نام کی وادی ہے جہاں بلوچ قوم کا ملگانی قبیلہ آباد ہے یہ علاقے اس لحاظ سے بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ وہاں 1875 کے پر آشوب دور میں اسلم خان ملگانی پیدا ہوئے ایثار و محبت کی مٹی سے گوندھا گیا یہ انسان اتنا معتبر ہے کہ باقی سارے حوالے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسلم بلوچ ان لوگوں میں سے تھے جن کے دل میں اپنے قبیلے کے سربراہ ہونے کے باوجود سرداری، جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی جیسے استحصالی نظام سے شدید نفرت تھی۔اسلم ملگانی نے سماجی اصلاح کار ،ادیب ،شاعر کی حیثیت سے قابل قدر خدمات سر انجام دیئے ہیں۔

ذلت کے عہد میں بھی تمنائے زندگی
یہ اُن کی خو ہے جن کی رگوں میں لہو نہیں

اسلم ملگانی نے انگریز استعمار اور تمن داری نظام کی سخت مخالفت کی اور انہوں نے اپنی زندگی میں دو کتابیں لکھیں۔ ان کی پہلی کتاب کا نام سیلف گورنمنٹ ہے جس پر برطانیہ نے پابندی لگادی اور ملگانی صاحب کو امرتسر ہندوستان بدر کر دیا گیا۔

امرتسر میں قیام کے دوران انہوں نے حکیم معراج الدین کے اخبارات میں المعین اور الوکیل میں بطور ایڈیٹر خدمات سر انجام دیں اور پھر اسی ادارے کے تحت 1915 میں ان کی دوسری کتاب سیر دیہات شائع ہوئی، اسلم ملگانی نے ڈیرہ غازی خان میں انگریزی حکومت اور تمن داروں کے خلاف جہاد جاری رکھا اور مزاری سردار سردار بہرام خان مزاری کو انگریزوں کی خدمات کی بنا پر جب سر کا خطاب دیا گیا تو انہوں نے ان کے خلاف شاعری لکھی کہ
ہم میں جتنے آنریبل سر پیدا ہوئے
کاٹ دینے کے جو قابلِ ہیں وہ سر پیدا ہوئے
واژ گونی ء مقدر سے بلوچ قوم میں
آدمی سب ہوگئے گم اور خر پیدا ہوئے
ہے اکڑ فوں ان کی کس برتے پہ باغ قوم میں
سروو کی صورت جو شجر بے ثمر پیدا ہوئے۔

زر خرید سرداروں اور تمن داروں کی شکایت پر انہیں جلا وطن کردیا گیا تھا، جلا وطنی سے پہلے انہوں نے ڈیرہ غازی خان کے بلوچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب اور ان کے لئے مختلف مقامات پر سکولز بنائے تھے اور علاقے کے لوگوں معاشی ترقی کےلئے زمیندار نامی بینک کا آغاز کیا جہاں ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا۔

بلوچ معاشرے میں سیکولر ازم اور ایمانداری کی حد یہ تھا کہ یہاں پر بسنے والے غیر اقوام اور غیر مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی ان سے متاثرہ ہوئے بنا نہ رہے سکے، وہ بطور ایک سیاسی جہد کار کے اتنے مقبول ہوئے کہ اگر اسلم ملگانی صاحب ہندو جوڑوں کے شادیوں میں شرکت نہ کرتے تو ان کے سات پھیرے مکمل نہیں ہوتے تھے، یہ بات پختہ یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ انقلابی جہد کار تھے، جو مکمل طور پر عمل پر یقین رکھتے تھے۔ اپنی جدوجہد میں وہ پابند سلاسل ہوئے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں جلا وطن ہوئے مگر اُن کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں