یوکرین کی سرحد کے پاس پولینڈ میں میزائل گرنے سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اس بات کا ‘امکان کم ‘ ہے کہ میزائل روس کی جانب سے فائر کیا گیا ہو۔ تاہم اس نئے واقعے سے تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
منگل کے روز یوکرین پر متعدد میزائل حملوں کے دوران ہی پولینڈ کے اندر بھی ایک میزائل دھماکہ ہوا، جس میں دو افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ میزائل حملے کے بعد پولینڈ نے نیٹو کی ‘دفعہ چار’ کو فعال کرنے پر غور کرنے کی بات کہی ہے۔
ادھر روسی وزارت دفاع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ روسی میزائل پولینڈ کی سرزمین پر داغے گئے ہوں۔ نیٹو، امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے کے حوالے سے اطلاعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ایک بیان کے مطابق انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ”یوکرین جنگ میں مزید وسعت سے بچنا بہت ضروری ہے۔” انہوں نے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے اس کی مکمل تحقیقات کی توقع ظاہر کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پولینڈ میں ہونے والے دھماکے کے بعد بالی میں نیٹو اور جی سیون کے رہنماؤں سے ہنگامی سطح پر بات چیت کی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے پولینڈ کی حمایت کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا روس کی جانب سے میزائل داغا جا سکتا ہے، بائیڈن نے کہا: ”جو ابتدائی معلومات موجود ہیں، وہ اس بات کے برعکس ہیں، میں اس وقت تک اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا جب تک کہ ہم اس کی مکمل تحقیقات نہیں کر لیتے۔”
تاہم بائیڈن نے پھر یہ بات دہرائی کہ اس کے فائر کرنے کی رفتار یا انداز سے اس بات کا ”امکان کم ہے” کہ اسے روس کی جانب سے فائر کیا گیا ہو۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولینڈ اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کو ”مشرقی پولینڈ میں ہونے والے دھماکے کے حوالے سے” فون کیا اور بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں نے ”آنے والے دنوں میں تحقیقات کو آگے بڑھانے میں قریبی روابط کا عہد کیا ہے، تاکہ اس کی بنیاد پر ”ہم آگے کے مناسب اقدامات کا تعین کر سکیں۔”
اقوام متحدہ میں پولینڈ کے مستقل نمائندے کرزیزٹوف سزرسکی نے کہا ہے کہ اس حوالے سے پولینڈ کا موقف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ بدھ کے روز، ”میں موجودہ صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دوپہر کے اجلاس میں پولینڈ کا موقف پیش کروں گا۔”