پاکستان فوج کے جبر سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں – بی این ایم

390

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا  کہ پاکستانی فوج کی جبر کی وجہ سے بلوچستان میں لوگ خودکشی کرنے پرمجبور ہیں۔ خاران میں عجاب یلانزھی کے بھائی  لطف اللہ یلانزھی  اور ان کی اہلیہ  کی خودکشی ریاستی جبر کا نتیجہ ہے۔یہخودکشی کے واقعات نہیں بلکہ یہ قتل ہیں۔ بلوچستان میں پاکستانی  فورسز لوگوں کوخودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کر رہیہیں۔رواں سال اب تک چار افراد نے فوجی تشدد کے نتیجے میں خودکشیاں کی ہیں۔

انھوں نے کہا 23 اکتوبر کو سی ٹی ڈی کے ہاتھوں عجاب یلانزھی کی جبری گمشدگی اور ان کے ماموں شفقت یلانزھی کی  ریٹائرجسٹس مسکان نور زھی کے قتل کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتاری کے باوجود پاکستانی فورسز مسلسل عجاب یلانزھی کے گھر پرچھاپے مار رہی تھیں۔چادر و چاردیواری کی پامالی کے ساتھ گھر والوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا تھا۔ جس سے تنگ آکرنوجوان لطف اللہ یلانزھی کی اہلیہ نے خودکشی کرلی جس پر ان کے غمزدہ شوہر نے بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

بی این ایم کے ترجمان نے  کہا اس سے قبل کیچ کے علاقے سرنکن میں چاکر مجید نے پاکستانی فوج کے دباؤ کے نتیجے میں خودکشیکا راستہ اختیار کیا تھا۔

انھوں نے کہا تین سال قبل مارچ دوہزار انیس کو پاکستانی فورسز نے سرنکن میں چھاپہ مارکر چاکر کو حراست میں لے کر دسمہینوں تک جبری لاپتہ رکھ کر شدید ذہنی وجسمانی تشددکے بعد رہا کر دیا تھا۔ رہائی کے بعد بھی فوج نے انھیں چین سے رہنے نہدیا بلکہ پاکستانی فوج چاکر مجید کو مسلسل کیمپ بلاتی رہی اور ان پر بلوچ جہدکاروں کے خلاف کام کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہیمگر چاکر فوج کے لیے کام کو کرنے سے خودکشی کو ترجیح دیا۔

ترجمان  نے کہا کہ چاکرمجید نے اپنی جان اس وقت لی جب فوج نے انھیں کیمپ بلاکر موبائل چھین لی او راپنی طرف سے ایک موبائلبمع سم اور ایک  جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والا ڈایوائس دیا تاکہ ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاسکے لیکن انھوں نے فوجکے لیے بطور جاسوس استعمال ہونے کی بجائے المناک موت کو گلے لگایا۔

’ 30 اگست 2022 (رواں سال) کو مہیم ولد آسمی نے بھی خودکشی کی تھی جنھیں مارچ 2014 کو پاکستانی فوج نے جبریگمشدگی کا نشانہ بنایا تھا۔ تشدد سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت بری طرح گرچکی تھی جس نے انھیں بالآخر زندگی سےمایوس کردیا۔ ٹارچرسیلز میں پاکستانی فوج قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے اس کے بعد متاثرین کو بحال ہونے میں سالوں لگجاتے ہیں جبکہ بہت سے افراد مناسب سہولیات اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات سے زندگی بھر نہیں نکل پاتے جن کوخودکشی اس اذیت سے نجات پانے کا واحد راستہ معلوم ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا بلوچستان میں خودکشی کا رجحان خطرناک سطح تک بڑھ کر ایک سماجی مسئلے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔بلوچستان پولیس کے مطابق گذشتہ سال 80 افراد نے خودکشی کی تھی جبکہ رواں سال میڈیا رکارڈ کے مطابق اب تک 14 افراد نےخودکشی کی ہے جو مجموعی تعداد کی محض ایک چوتھائی ہے۔غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال بلوچستان میں 56 افراد نے خودکشی کی ہے جن میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات مکران ڈویژن کے ضلع کیچ میں پیش آئے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ بلوچستان کے حالات ، پاکستانی فوج کے جبر اور بلوچستان میں پاکستانی فوج کی کٹھ پتلی حکومت کی سماجی معاملات میںعدم دلچسپی نے لوگوں کو مایوس کردیا ہے جس کے نتیجے میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہو  رہا ہے۔خودکشی کرنے والے بیشترافراد نوجوان ہیں جبکہ خواتین بھی بڑی تعداد میں خودکشیاں کر رہی ہیں۔