نوآبادیاتی نفسیات کا منطقی نتیجہ
تحریر: ایس کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر آج ہم بلوچ سماج کی بات کریں تو یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچ سماج خود ایک غلام سماج ہے، جہاں لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ مختلف گروہ یعنی قبائلی ٹولے اور نمونے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان قبائلی گروہوں میں حقیقی بلوچ کی روایات و ثقافت کے کوڈز استعمال نہیں ہوتے، جس طرح پرانی رسم و رواج میں اکثر استعمال ہوتے تھے. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ نے بلوچ قبائلی سردار و میروں کو اپنا تابعدار بناکر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی جو کوشش کی آج وہ “یورپین جدیدیت” اور “نیا مسلمانیت” کی شکلیں اختیار کر چکے ہیں۔ نواب و سردار اور نام نہاد سیاسی جماعتیں یعنی پارلیمانی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کر ان گروہوں کے اندر ہر نمونہ بلوچ قوم کا وعدہ کرتا ہے کہ” منا بلوچ راج ء سوگند انت کہ من ترا زندگ ء نیل آں۔” یہی وہ جملہ ہے جو ہمارے ہیروز اور جدوجہد کرنے والے نڈر انقلابی خاتون اور مرد دوسرے نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف اٹھ کر جنگ کے دوران بولتے تھے لیکن آج یہی جملے مولانا، اختر مینگل اور باقی نام نام نہاد قوم کے دعویداروں کے منہ سے نکلتا ہے۔
یہ ایک عجیب و غریب شکل ہے جس کا تجزیہ کرنا ہر بلوچ نوجوان مرد اور عورت کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ کچھ لکھیں اور بولیں کیونکہ موجودہ حالات میں ہمیں مختلف گروہ یا ٹولے نظر آتے ہیں وہ( حقیقی سیاسی جماعتوں کے علاؤہ) سارے ہمارے بربادی کیلیے بنے ہیں۔
الجزائر کا نفسیاتی تجزیہ نگار ڈاکٹر فرانز فینن کی کتابوں( سیاہ جلد،سفید چہرہ، افتادگان خاک، اور سامراج کی موت) کے اندر یہی نظر آتی ہے کہ ایک محکوم قوم کے اندر نوآبادکار کس طرح ایک پرانی قوم کی ملک میں آکر وہاں قوم کی ثقافت و تہذیب، تاریخ، ملنا جلنا،، انداز فکر، انداز بیان، اور باقی مختلف بنیادی چیزوں کو کس طرح اپنے حساب سے بناکر قابض ہوتا ہے۔ جس طرح برطانیہ، پرتگیز، فرانس، اور باقی جو نوآبادیاتی طاقتوں کی یہی ہی حربے تھے جو ہمیشہ لوگوں کو احساس کمتری کا شکار کرنے کے بعد انہیں ایک دوسرے سے لڑوایا یا لڑوا رہے ہیں۔ مزید ہم دیکھیں تو آج بلوچ سماج میں یہی شش و پنج نظر آتا ہے اور با شعور نوجوانوں کے درمیان بھی یہی جراثیم پھیل چکی ہے۔
یہ موضوع بہت بڑا اور مختلف کتابوں کی نشاندھی چاہتی ہے لیکن میرے پاس میرے اپنے ملک و قوم کی تجرباتی خیالات ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ کچھ لکھوں اور بولوں.
ہاں، یہ ضرور کہتا ہوں کہ اردو میری ماں کی زبان نہیں۔۔۔
موضوع اسی طر ح چلتا ہے کہ مائیں، بہنیں اور چھوٹے چھوٹے بچے ریپ ہوتے ہیں، لڑکیوں کو جنسی تشدد کا شکار بنا رہے ہیں، کہیں لڑکیاں دوسرے جگہوں پر جنسی بازار کو گرم کرنے کیلیے بھیج دی گئی ہیں( کوئی شک نہیں ہمیں لکھنے اور سننے کے دوران شرمندگی محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم ایسے کیسے لکھیں لیکن حقیقت یہی ہے) یہاں تک کہ سردار و نواب اور باقی بڑے بڑے قوم کے ٹھیکیدار بھی اسی بازار کو گرم کرنے میں لگے ہیں۔
مختلف نام نہاد سیاسی یعنی نام نہاد پارلیمانی طلبا تنظیموں کی ٹولوں کو کچھ خبر تک ہی نہیں۔
وہ اس لیے کہ ہمارے نمونے سگریٹ نوشی کی زندگی کو خوبصورت بنانے، ہوٹل میں چائے پینے، فیسبک و ٹیوئٹر میں اپنے علاقے کے سرمایاکاروں کی تعریف، غیر جانبدار باتوں، اور باقی مختلف چیزوں کو کرنے، میں مصروف ہیں۔۔۔ جب بھی انہیں پوچھتے ہیں کہ آج کل کیا کیا کررہے ہیں؟ وہ کہنے لگتے کہ ہم بلوچ قوم کیلیے با شعور نوجوان و نڈر لیڈرز بنانے میں مصروف ہیں۔ بعد ازاں وہی بندہ جو م کہتا ہے کہ ہم با شعور نوجوان و نڈر انقلابی سوچ رکھنے والے لیڈرز بنارہے ہیں آخر کار پارلیمانی سیاست کرنے والے کتوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے میں نظر آتے ہیں۔۔۔ یہاں یہی سمجھنا چاہیے کہ ہم جو کچھ بولیں اور لکھیں، کیا ہم خود تیار ہیں؟
یہاں طبقے نہیں بلکہ طبقے بنائے گئے ہیں وہ اس طرح کہ سوشلزم، کمیونزم، اور نیشنلزم کے دعویداروں کی تضاد دن بہ دن بڑھ رہی ہے جہاں ایک بی ایس او خود کو سوشلزم کا دعویدار بناتا ہے وہی دوسرے ٹولے یعنی پارلیمانی طلبا تنظیمیں قوم پرستی کا دعویدار ٹہراتے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ ظالم قوت ہی ہے کہ ہمیں ایسے انتشاری کیفیت سے نکلنے نہیں دیا اور ہمیں ایک دوسرے سے لڑوا رہا ہے۔
ہم کہتےہیں کہ ہم باشعور لوگ ہیں،ہمارے اندر تجسس و تحقیق کا ایک رجحان ہے کیا آج ہمارے تجسس و تحقیق کا طریقہ کار جاہلانہ نہیں کہ جہاں ظلم و جبر کو دیکھ کر ہر بندہ اپنے آپ کو الگ شکل دینے کی کوشش میں لگا ہے؟ جیساکہ کہ ایک کہتا ہے کہ میں لینن و مارکس کے نظریے کے پیروکار ہوں اور میرا طریقہ الگ ہے وہیں دوسری طرف پارلیمانی جراثیم کہتا ہے کہ میں ایک قوم پرست ہوں، میں بلوچ قوم کے بارے میں سوچتا ہوں اس لیے میرا طریقہ کار اپنے لوگوں کے مطابق ہوگا۔۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت دونوں کا ایک ہی ہے کہ وہ دونوں قوم کے نوجوانوں کو کنفیوز کرنے میں لگے ہیں۔
بڑے بڑے ماہروں اور ادیب و لکھاریوں کا کہنا کہ نوآبادیاتی نظام کا نفسیات پر قابض ہونے کا جو حربہ ہے وہ سب سے بڑا خطرناک ہے کیونکہ انسان اپنے غلطیوں اور انداز فکر کو صحیح مان کر اپنے سماج میں دوسرے سماج کی ملنے جلنے کا طریقہ کار کو دیکھنا چاہتا ہے۔وہ مختلف قسم کے لفظ یعنی جدیدیت، جدید کلچر، اور دوسرے زبانوں کے کچھ لفظوں کو بولنا شروع کرتا ہے۔اج بلوچ سماج میں یہی چیزیں نظر آتے ہیں اور مستقبل کے معماروں کی منہ سے یہی سننے کو ملتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں