شہدائے بلوچستان ۔ سفیر بلوچ

352

شہدائے بلوچستان

تحریر: سفیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج کا دن شیرینی ء فردا کے متلاشی اپنے قیمتی جانوں کا نزرانہ دینے والے اُن جانثاروں کے نام جو شب کی سیاھی کو صبح ء داہم میں بدلنے کے لیے ظلمتوں سے برسرِ پیکار رہے. آج کا دن بلند حوصلوں کے مالک اُس خان بلوچ کے نام جن کو تاریخ لال شہید کے نام سے یاد کرتی ہے. ایک سو تراسی سال پہلے آج ہی کے دن اپنے لشکر کے ساتھ انگریز فوج کا دلیرانہ مقابلہ کر کے شہادت کو گلے لگانے والے بلوچ بادشاہ کے نام جسکے خون کے قطرے بلوچ سرزمین پر گرنے سے چند ساعت پہلے کے ان الفاظ کی گونج ہمیشہ سناہی دیتی رہے گی کہ
ُُ ُ بعض جنگیں جیتنے کے لئے نہیں بلکہ تاریخ میں اپنا کردار نبھا کر نام درج کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔

آج کا دن اُس شہید کے نام جن کی بہادری کے گیت گائے بغیر بلوچی لوک گانے نامکمل تصور کیے جاتے ہیں جن کو اُس وقت کے استعمار نے نامعلوم جگہ پر دفنا کر یہ سمجھ لیا کہ وہ تاریخ کے پنوں سے گم شدگی کا شکار رہیں گے. مگر سرزمین پر جان نچھاور کرنے والے بھلا گمشدہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ بلکہ تاریخ میں ایک اعلٰی اور نمایاں مقام ان کے لیے مختص ہوتی ہے۔

آج کا دن اُس شہید کے نام جس نے فرنگی حاکمیت کو قبول کرنے سے منکر ہونے کا شرف حاصل کر کے تاریخ میں جگہ پاہی اور بلوچ سرزمین پر غاصبانہ نیت رکھنے والوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے مقدس راہ پر چلنے اور شہادت کی موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی اُن کے نقش قدم آج بھی مزاحمت کرنے والوں کے لیے راہ بلد کا کام دیتے ہیں. . جن کا خلقی گیتوں میں چار فرنگیوں کو مارنے کا ذکر ہمیشہ فخریہ انداز میں کیا جاتا ہے.

آج کا دن اتحاد بلوچاں کے داعی اور بلوچ عوام کی بدحالی پر کُڑھنے والے اُس بلوچ رہنماء کے نام جن کو زندگی نے مہلت نہ دی اور کم عمری میں ہی شہادت پا گئے .اُس بلوچ رہنماء کے نام جس نے شمس گردی جیسی دستاویز تحریر کر کے بلوچ سیاست میں جدت کی بنیاد ڈالی. جو جبر استبداد اور سامراج کے خلاف جدوجہد کو اپنا بنیادی فریضہ تصور کرتے اور بلوچ قوم کی خوشحالی کیلئے تگ و دو کرنے کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے تھے.

آج کا دن انگریزوں کے بلوچستان سے انخلاء اور بلوچ وطن کا قبضے میں چلے جانے کے بعد مزاحمتی تحریک کی بنیاد ڈالنے والے شہزادہ کے نام جس نے سترہ سال کا طویل عرصہ مختلف جیلوں اور زندانوں کی صعوبتوں میں گزارے.

آج کا دن سرلٹ کے مقام پر خیمہ زن تقریباً پانچ ہزار بلوچ مجاہدین سیاسی رہنماؤں اور جانبازوں کے نام جنھوں نے بلوچ وطن کی آزادی کی تحریک میں حصہ لیکر آج تک چلنے والی بلوچ قومی تحریک کو قانونی حیثیت دے دی.

آج کا دن پایہ تخت کے شاہی مسجد کے شہید مینار کے نام جو ایک اسلامی ملک کے مسلمان فوج کی گولہ باری اور بربریت کی نشانی ہے.
آج کا دن اُن ساتوں شہداء کے نام جنھیں ہفت ہیکل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جنھیں پھانسی دینے کے بعد ان کے بارے نوٹس لگا دی گئی. کہ اگر انھیں ایک ہفتے تک لواحقین نے وصول نہیں کیا تو انھیں لاوارث قرار دیکر دفن کیا جائے گا. آج کا دن اُس بلوچ خاتون کے نام جس نے نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیتے ہوئے کہا کہ کہ یہ میرے بھاہی ہیں یہ لاوارث نہیں ہیں. یہ بلوچ ہیں. آج کا دن اُس باپ کے نام جس نے اپنے پھانسی پانے والے شہید بیٹوں کی آخری دیدار کے وقت ان کے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوہے کہا کہ دلیروں اور آزادی کے متوالوں کی وطن پر مر مٹنے والوں کی مونچھیں نیچی نہیں ہوتیں.

آج کا دن ان دو بلوچ نوجوانوں کے نام جن کو جب ریاستی اہلکاروں نے زخمی کر کے اغواء کیا تو ان کے خون کے قطرے زمین کو سرخ رنگ میں رنگتے رہے. تب سے اب تک وہی خون کے قطرے ان کی نشانیاں رہیں. جب ان میں سے ایک کے والد بلوچ رہنما کو جیل میں اطلاع کی گئی تو اُس بلوچ رہنماء نے یہ کہتے ہوئے پرسہ لینے سے انکار کیا کہ سب بلوچ نوجوان میرے بیٹے ہیں میں ایک کے لیے ماتم کیوں کروں. آج کا دن اُسی بلوچ نوجوان کے نام جن کے مقبرے کا آج تک پتہ نہیں چل سکا.

آج کا دن بیجی کہؤر کاہان کے ان تیرہ نوجوانوں کے نام جنھیں فوج نے ایک قطار میں کھڑا کر کے شہید کر دیا. آج کا دن کاہان کے اُس پیراں سال بلوچ اور اس کے خاندان کے نام جن میں مرد خواتین اور بچے شامل تھے. پاکستانی فوج نے ان سب کو بلا تخصیص فاہرنگ کر کے شہید کر دیا.

آج کا دن اُس شہید کے نام جن کے قدموں کے نشانات اس طرح پہچان میں آتے کہ وہ تیز چلنے اور اس پہاڑ سے اُس پہاڑ تک انتہائی سرعت سے پہنچ جانے کی صلاحیت رکھتے.

جھالاوان اور بولان کے پہاڑی سلسلے جن کا مسکن رہے.
آج کا دن اُس بلوچ شہید کے نام جس کا ذکر دشمن کے لکھی گئی کتابوں میں بھی چھلاوا کی نام سے کیا جاتا ہے. جن کو راہ سے ہٹانے کیلئے اگر جھالاوان میں ناکہ بندی کی جاتی تو وہ ساحلی بلوچستان سے نمودار ہوتے.

آج کا دن اُس نوجوان شہید کے نام جس نے آمریت کے بد ترین دور میں بلوچوں کو کسی دوسرے ملک میں ایک مظلوم قوم کے خلاف کراہے کے سپاہی کی طور استعمال کرنے کے خلاف آواز بلند کی تب آمر حکومت نے انھیں پھانسی کی سزا سنائی. تختہ دار تک جاتے ہوہے بارش کی وجہ سے پاؤں پھسلے تو بازوؤں کو تھامنے والے اہلکاروں کو کہا کہ بارش کی وجہ سے پھسلن ہے وگرنہ میں اپنے موقف پر قاہم ہوں. آج کا دن پھانسی کے پھندے کو چومنے والے اُس نوجوان کی پاہے استقامت کے نام اور اُس وصیت کے نام جس میں اس نے بلند حوصلوں سے اپنے ساتھیوں اور لواحقین کو جدوجہد جاری رکھنے کی تاکید کی.

آج کا دن وطن کے شہید کوہسار راسکوہ کے نام جس میں ایٹمی دھماکے کر کے انسانیت کشی کا قبیع عمل کیا گیا.

آج کا دن پیراں سال بلوچ رہنماء کے نام جس نے سر جُھکانے کی بجاہے مزاحمت کرنے اور پہاڑوں میں کوہ نشینی کو ترجیح دی. ان کی گرجدار آواز اور للکار کے نام اور روز شہادت کی اس قابل دید کیفیت کے نام جب ایک رعب و دبدبے کے مالک بلوچ نے سرزمین کے ایک محافظ کے طور اپنا فرض نبھایا اور شہادت پائی.

آج کا دن اُس ہفتاد سالہ شہید خاتون کے نام جس نے ایک شہید نوجوان کے جسد کی وصولی کے دوران فوجی کے اس سوال پر کہ آپ اس کی کیا لگتی ہیں؟ دستخط کے نام پر دو لکیریں کھنچتے ہوہے کہا کہ میں اس کی ماں ہوں.یہ میرا بیٹا ہے پوچھ لینا اپنے لوگوں سے میرا فقط ایک ہی بیٹا کتنی دیر تک تم لوگوں سے برسرپیکار رہا.

آج کا دن بلوچ قوم پرست پارٹی کے سربراہ اور اس کے دو ساتھیوں کے نام جنھیں گرفتار و لاپتہ کر کے ان کی لاشیں مسخ کر کے مرگاپ میں پھینک دی گئیں. ان کے زندہ و تابندہ فکر کے نام ان کی جدوجہد اور استقامت کے نام۔

آج کا دن اُس بلوچ شیرزال کے نام جس نے اپنے شہید بیٹے کی تابوت کو ویگن کی چھت سے اتارنے والوں کو کہا کہ میرے بیٹے کو ذرا احتیاط سے اُتارنا. اُس نے تابوت اور لاش کہنے سے گریز کیا اور آخری دیدار کے وقت انگلیوں پر حساب لگاتے ہوئے کہا کہ شہادت کے وقت تک میرا بیٹا ستائیس سال کا ہے.

آج کا دن اُس شہید کی ماں کے نام جس نے اپنے شہید بیٹے کی دوست کی لاش پر بین کرنے والوں کو رونے سے منع کیا اور سینہ کوبی اور گریہ و ماتم کی بجاہے شہید کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے شہدائے وطن کے نام سلام بھیجتی رہیں.

آج کا دن گَرو پیہونا خل کے آبی نالی میں شدید زخمی حالت میں ہونے اور گولیوں کی تڑتڑاہیٹ اور بوچھاڑ کے باوجو اپنے قوم کو جہد و قربانی کی تلقین کرنے والے نوجوان اور اس کے شہید ساتھیوں کے نام جو سب ایک ہی خاندان اور ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے.

آج کا دن بلوچ وطن سے متصل زمین پر شہادت پانے والے جانثاروں کے نام جن کے مزار پر کتبہ نہیں لیکن ان کی جہد و قربانی کو بلوچ تحریک میں ایک نمایاں درجہ حاصل ہے.

آج کا دن توتک کے اجتماعی قبروں سے ملنے والی زمین زادوں کی لاشوں کے نام، آج کا دن دشت کے بے نام قبروں کے نام، آج کا دن بلوچ وطن کے ان ہزاروں شہیدوں کے نام جنھوں نے قومی بقا کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں.

آج کا دن بلوچوں کی اُن اُمیدوں کے نام جو اپنے زندہ؟ رہنماؤں کی تنگ سینوں کو اپنے وطن بلوچستان کی طرح وسیع اور فراخ دیکھنا چاہتے ہیں. جو چاہتے ہیں کہ بلوچ رہنماء بھی اُسی طرح کی وسیع قلبی کا مظاہرہ کریں جس کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچ شہداء نے عظیم مقصد کے لیے اپنا لہو بہانے میں کوہی تردد نہیں کیا، آج کا دن تضادات و تفرقات کو مٹتے دیکھنے کی توقعات کے نام. آج کا دن آزادی کی نظریات کے نام،آج کا دن تین ٹُکڑوں میں تقسیم بلوچ وطن کو اکٹھا ہوتے دیکھنے کے لیے جہد کاروں کے نام، آج کا دن سچے جزبوں کے نام،آج کا دن اُن مجسم حیاء بلوچ خواتین کے نام جن کے ساہبان جیسے ہمسفران ء زندگی بلوچ راہ آزادی میں اپنی جان دیکر اُن کو کڑی دھوپ میں جینے کے لئے تنہا چھوڑ گئے. آج کا دن اُن مہروانوں کے نام جو سماجی پابندیوں میں رہتے ہوئے چلتن کی طرف رخ کر کے اپنے آنچلوں سے شہداء کو محتاط سلام بھیجتی ہیں جو ان کے ساتھ بندھن میں بندھے تو تھے لیکن ان کا ہمسفر نہ بن سکے اور وطن کی آغوش میں محو خواب ہوہے . آج کا دن اُن محبت بھری سلاموں اور سرد آہوں کے نام.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں