جوش و جذبہ ۔ ندیم غازی

567

جوش و جذبہ

 تحریر: ندیم غازی

دی بلوچستان پوسٹ 

 فطرتا ہر انسان کے اندر کچھ کرنے اور کچھ پانے کی حسرت ہوتی ہے اور اسی حسرت کو پانے کے لئے اسکے جذبے اور جوش ابھرتے ہیں. 

چاہے وہ حسرت قومی، سماجی، سیاسی، علاقائی چاہے جس لیول کی ہو اسے حاصل کرنے کے لئے ٹارگٹ بناتا ہے.

کیونکہ، جذبہ انسان کی زندگی میں جڑوں کی مانند ہے جس طرح ایک درخت کو مظبوط ہونے کے لئے مظبوط جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اُس کو کوئی طوفان باآسانی نہ گرا سکے بالکل اسی طرح ہر ایک کو آگے بڑھنے اور ٹارگٹ کو پانے کے لئے اپنی حسرت اور جزبات کو ہمیشہ مضبوط کرنا چاہیئے کیونکہ ہر سجایا ہوا خواب انہی جزبوں سے منسلک ہے.  

 زندگی کے راستے بہت سخت اور کٹھن ہوتے ہیں بہت ساری مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے مگر ہمیشہ منزل تک وہ پہنچتا ہے جو اپنے جوش و جزبے کو قابو رکھتا ہے اور اسے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ ـ

جس طرح بہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو کچھ کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے اندر کچھ کرنے کا جزبہ پیدا کرتے ہیں۔ مگر یہ لوگ عارضی کے ہوتےہیں زیادہ دیر کے لئے نہیں چل سکتے کیونکہ، انکے جزبات دوسروں کے دیئے ہوئے جزبات ہوتےہیں وہ شوق کے بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں اور جب کبھی شوق ختم ہوتا ہے تو اپنے جزبات کو آگے نہیں بڑھا سکتے.   

میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جب بھی کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اُس کو ضرورت سمجھنا چا ہیئے، چاہت نہیں، کیونکہ چاہت اور شوق، کسی بھی چھوٹی سی مایوسی کے بنا پر ختم ہو سکتے ہیں.  

 اسی طرح کئی ایسے لوگ ہوتے جن کے پاس قومی جوش اور جزبہ ہوتا ہے، لہذا ان کو حاصل کرنا تب ممکن ہوتا ہے جب تعلیم اور علم ہو، کیونکہ تعلیم کسی بھی قوم کو اپنی زبان، ثقافت، اور تاریخ کو جاننے میں مدد کرتی ہے۔ 

بلکہ قوم کے ہر نوجوان کو چاہیئے کہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کے جزبات اور احساسات، اپنی قومی زبان اور اپنی قومی تاریخ کو پروان چڑھانے اور اُنکے پاسداری کے لئے ضرور آزمائیں۔ 

 . اگر کسی نے اپنے جزبے کو قوم کو روشناس کرانے اور اُنکی بقا کے لئے اپنے دل میں بسایا ہو، وہ بسایا ہوا جزبہ ضرور ایک نہ ایک دن قوم کے مستقبل کو روشن کرے گا. 

لیکن، بد قسمتی سے، جدید دور میں قومی سیاست کو اپنی اثاثہ سمجھا جاتا ہے. ہر کوئی ایک دوسرے کے جڑوں کو کاٹنے میں مصروف ہے. 

بلکہ قوم پرستانہ سوچ کا مالک، اور قومی جزبہ رکھنے والا شخص، کبھی بھی اپنی قوم کی جڑوں کو زمیں سے اکھاڑنا نہیں چاہتا بلکہ مزید اُس کی کوشش ہمیشہ جڑوں کی مظبوطی کے لئے ہوتی ہے تاکہ کوئی باہر کی قوّت ہلا نہ سکے۔ 

.

لیکن، آج کل بیشتر لوگ انا پرستی کے شکار بن چکے ہیں اپنی انا کو قبول نہ کرتے ہوئے اور نام نہاد قوم پرستی کا جزبہ دکھاتے ہوئے قوم کو مزید اُلجھنوں میں دوچار کرنے میں مصروف ہوتے ہیں.مگر جہاں تک بات قوم کے دفاع کےلئے ہورہی ہو اُس کے آگے خود پرستی اور انا پرستی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے پاس قوم پرستی کا جزبہ نہیں ہوتا، وہ شعور سے بالکل عاری ہوتے ہیں.

 تاریخ میں بھی یہ چیز واضح ہے کے ہر قوم کا مستقبل، قوم کے نوجوان ہوتے ہیں جو کہ قوم کےدفاع کے لئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. اگر یہ نوجوان کل نرگسیت کا شکار ہوجائے یاکہ، ایک دوسرے کے گریباں کو پکڑنے کی کوشش کریں وہ کل جاکے اپنی قوم کو ایک مضبوط پلیٹ فارم پر تیار کرنے کےبجائے وہ قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہونگے.

جب، قوم کے نوجوان اپنی قوم کا تحفظ کرنے یاکہ آزادی پانے کے لئے قدم نہیں اٹھاتا، یہ بات درست ہے کہ قوم کا وجود خطرے میں ہو سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹاس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں