بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4875 ویں دن پریس کلب کے سامنے جاری رہا۔
اس موقع پر ضلع مستونگ سے محمد عظیم بلوچ، نور محمد بلوچ، دستگیر بلوچ اور دیگر نے لواحقین سے اظہار یکجتی کی۔
آج بلوچستان کے ضلع خاران سے رضیہ بلوچ نے کیمپ میں آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
رضیہ بلوچ نے کہا کہ میرے بھائی شاہ فہد کو رواں سال مارچ کو ہمارے گھر سے سیکورٹی فورسز نے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کردیا اور ہمیں بھائی کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کیا جارہا ہے جسکی وجہ سے ہمارا خاندان ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے ہمارے گھر سے ستر ہزار روپے، کمپیوٹر و دیگر چیزے اپنے ساتھ لے گئے۔
انہوں نے کہاکہ اکتوبر کے مہینے میں چیف سیکٹری اور ایف سی ذمہ داروں نے کہا تھا کہ بھائی کو سی ٹی ڈی والے لے گئے ہیں۔ میرے بھائی کو منظر عام لایا جائے۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سالوں سے بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کی شدت میں ریاست روز اضافہ کر رہا ہے۔ بلوچوں کو جبری لاپتہ کر کے انہیں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے جیسے گھناؤنے اور غیر انسانی عوامل جاری تھے کہ ریاست پاکستان نے ان بلوچ نسل کش پالیسیوں کے شدت میں اضافہ کرتے ہوئے عام بلوچ شہریوں کے گھروں پر بمباری کرنے چادر و چار دیواری کی پامالی کر کے انہیں لوٹنے اور بعدازاں جلانے کا نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔
میرا نام رضیہ بلوچ ہے میں خاران سے آئی ہوں میرے بھائی شاہ فہد کو رواں سال ہمارے گھر سے سیکورٹی فورسز نے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کردیا اور ہمیں بھائی کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کیا جارہا ہے جسکی وجہ سے ہمارا خاندان زہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے pic.twitter.com/2gIqfYfblY
— VBMP (@VBMP5) November 29, 2022