سر براہ راجی رضاکار ڈاکٹر امداد بلو چ نے کہا ہے کہ ضلع کچھی میں سیلاب کے باعث ممپس وباء پھیلنے کی خبر پر ضلعی انتظامیہ اورمحکمہ صحت بیماروں کے روک کے لئے اقدامات اٹھانے کے بجائے خبروں کو غلط ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگی ہو ئی ہے تاکہ انکی نااہلی اور ناکامیاں چھپ سکے، محکمہ صحت کے دعووں کو مسترد اور ان کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہونے والے اور بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے محکمہ صحت کے اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
یہ بات انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کر تے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ سیلاب کے بعد سے اب تک بلوچستان کے کئی اضلاع میں سیلاب زدہ آبادیاں بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں ان آبادیوں میں رہنے والے افراد بیماریوں اور اموات کا سامنا کر رہے ہیں آئے روز ان علاقوں میں کسی نہ کسی بیماری کی وبائی شکل اختیار کرنے کی اطلا ع ملتی ہے جب رضاکار ان علاقوں سے بیماریوں اور اموات کی خبریں کسی طرح سے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت ،بجائے قیمتی زندگیاں بچانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کے ،ان خبروں کو غلط ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں تاکہ اْن کی نااہلی اور ناکامی چھپ سکے۔ انہوں نے کہاکہ سیلاب زدگان کی محرومیوں اور حالت زار کے بارے میں بخوبی آگاہ ہیں اپنی تنظیم کی جانب سے ابتداء میں ہم نے کوشش کی کہ انتہائی خطرہ سے دوچار آبادیوں اور خاص طور پر بچوں اور حاملہ خواتین کی تفصیلات جمع کرکے حکومت کو آگاہ کریں تاکہ وہ قیمتی انسانی جانیں بچانے کے لئے ضروری ہنگامی اقدامات کرسکیں۔
انہوں نے کہاکہ مگر انتظامیہ کی جانب سے بے حسی دکھانے کے بعد ہم نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی اور طے کیا کہ ہم خود ہی اپنی ٹیمیں بنا کر اور ان کو تربیت دے کر اپنے بچوں کی زندگیاں بچائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیداران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ان سے ویکسین اور دوائیاں وغیرہ حاصل کرکے اپنے تربیت یافتہ رضاکاروں کے ذریعہ انتہائی دور دراز اور بیماریوں سے انتہائی متاثرہ آبادیوں میں کام کر سکیںکیونکہ ویکسین اور غذائی قلت کے شکار بچوں کے لئے مخصوص خوراک کی خریداری ایک تو ہمارے بس میں نہیں تھی، دوسری جانب حکومت اور ان کے پارٹنر اداروں کے پاس وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں جو کہ بعض اوقات استعمال نہ ہونے کی وجہ سے ایکسپائر بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر ہماری اس کوشش کو بھی نظر انداز کر دیاگیا ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت نے اپنا فرض نبھانے اور ضروری اقدامات کرنے کی بجائے معمول کی کاروائی کرتے ہوئے چند لوگ مذکورہ علاقہ میں بھیجے اور ساتھ میں بیان جاری کیا کہ اس علاقہ میں ممپس کی بیماری کے کوئی علامات نہیں بلکہ صرف ایک بچہ مرا ہے وہ بھی ملیریا سے ۔
انہوں نے کہا کہ نہ تو ہم اور نہ ہی محکمہ صحت کے ذمہ داران تعین کرسکتے ہیں کہ واقعی میں یہ ممپس کے ہی کیس ہیں مگر رائج ہدایت نامہ کے مطابق بغیر لیبارٹری ٹیسٹ کئے وہ اس وباء کی موجودگی سے مکمل انکاری ہو کر ان کو جھٹلا بھی نہیں سکتے۔ جب بھی کہیں سے کسی وباء کے پھوٹنے کی اطلاع ملے تو اس سے نمٹنے کا ایک وضح کردہ طریقہ کار موجود ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ محکمہ صحت کے اہلکار اس وضع کردہ معیار اور طریقہ کار سے نا واقف ہیں۔کیونکہ اصل طریقہ کار تو یہ ہے کہ جب کسی مریض میں ممپس کے علامات ظاہر ہوں تو اْسے suspected case قرار دے کرفوراً نمونہ یا سیمپل حاصل کر کے NIH لیبارٹری اسلام آباد بھیجا جاتا ہے لیبارٹری کی رپورٹ وصول ہونے میں کم از کم ایک ہفتہ لگتا ہے۔ جب تک لیبارٹری رپورٹ نہیں آتی اْس وقت تک ان کیسوں کو ممپس ہی سمجھ کر دوسرے بچوں کو اس بیماری سے بچانے کے لئے ضروری اقدامات کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ممپس جیسی بیماریوں کی اطلاع موصول ہونے کے بعد کچھ ضروری اقدامات کئے جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہدایت نامہ کے مطابق ایسے کسی مریض کے موجودگی کی اطلاع ملتے ہی 2دن کے اندر مذکورہ علاقہ میں جا کر تحقیقات شروع کی جانی چاہیے اور ہر مشتبہ مریض کیلئے ایک الگ فارم پْر کیا جانا چاہیے۔ اور دیگر صحت مند افراد خصوصاً بچوں کو بچانے کے لئے حفاظتی ٹیکہ جات لگائے جانے چاہئیں۔ مگر دس دن گزر نے کے بعد بھی محکمہ صحت کے اہلکار اپنی جان چھڑانے اور اپنی نااہلی چھپانے کے لئے کبھی کہتے ہیں کہ تصاویر میں موجود بچوں میں ممپس کے علامات موجود ہی نہیں اور کبھی بغیر لیبارٹری تصدیق کے ہی ممپس کے کیسوں کی تصدیق کرتے ہیں۔انہوں نے محکمہ صحت کے دعووں کو مسترد اور ان کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہونے والے اور بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے محکمہ صحت کے اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔