بلوچ خون کے چیھنٹے اور مادر وطن ۔ فراز بلوچ

332

بلوچ خون کے چیھنٹے اور مادر وطن

تحریر: فراز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

خون ہمارے جسم کا وہ حصہ ہے جو ہماری جسمانی زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔ بچپن سے ہی ہم فطری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ خون قیمتی ہے۔ کہیں بھی خون کا ظاہر ہونا خطرے کی گھنٹی بجا دیتا ہے۔ اس کا رنگ عالمی سطح پر خطرے، موت اور ہنگامی صورتحال کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سرخ وہ رنگ ہے جسے ہم کسی بھی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کا فوری علاج کیا جانا ضروری ہے۔ خون کا رنگ وہ رنگ ہے جسے ہم لاشعوری طور پر پہچانتے ہیں جو ہم سے فوری ردعمل کا مطالبہ کرتا ہے۔ خون سرخ ہوتا ہے وہ دیکھنے میں اکثر خوفناک ہوتا ہے، سرخ سگنل کو نظر انداز کرنا نقصان اٹھانے کے لیے آگے بڑھنا ہے، اور یہی خون ہماری قومی زندگی کو برقرار رکھتی ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ” سوئے ہوئے آدمی کو جگانے کے لیے پانی کی چند بوندوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لیے شہیدوں کے خون کی ضرورت پڑتی ہے”

1839 کو انگریز سامراج کے خلاف بلوچ قومی مزاحمت نے اپنے گل زمین پر قبضہ کے خلاف اپنا مقدس خون بہا کر اپنے وطن سے بے پناہ محبت کا اظہار کیا، یہ خون کی چھینٹیں اپنی قومی بقا و قومی وجود کے لیے تھا، یہ خون کی چھینٹیں برطانوی سامراج کے توسیع پسندی اور قومی غلامی کے خلاف تھا، یہ خون کی چھینٹیں بلوچ گل زمین کی جغرافیائی، تزویراتی و اپنی وطن کی دفاع کیلئے تھا، 1839 کے ان بہتے خون نے اپنے قومی وجود کو ترجیح دیکر اپنے ماضی کے تسلسل کو برقرار رکھا اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت اختیار کرگیا۔ بلوچ وطن بلوچوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے اس سر زمین کی دفاع کے لیے متعدد بار بلوچ قوم نے قبضہ گیر قوتوں کے خلاف بغاوتیں کیں۔ وقت کے ظالموں نے ان بغاوتوں کو سختی سے کچلا لیکن پھر بھی وطن کے سپوتوں نے اپنے خون سے اس مٹی کی آبیاری کی۔

بلوچستان کی مزاحمتی تاریخ پر 1839 شہید محراب خان اور اس کے جانثار ساتھیوں کی چھاپ بڑی گہری ہے۔ برطانوی راج کے خلاف شہید محراب خان کی جدوجہد اور آزادی کی آرزو آج بھی بلوچ قوم کے دلوں پر راج کرتی ہے۔ بلوچ سرزمین پر برطانوی قبضے کے خلاف بلوچ قوم میں انتہائی غم وغصہ پایا جاتا تھا، انگریز نے بلوچ قوت کو مجتمع ہونے کے ڈر سے بلوچ وطن کے مختلف حصوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ مختلف ادوار میں بلوچ حریت کی چنگاریاں اُٹھتی رہی، شہید میر محراب خان اور اس کے جانثار ساتھیوں کے خون کے چھینٹیں میر بلوچ خان سے ہوتے ہوئے شہید نورا مینگل کی شہادت تک، اور شہید نورا مینگل کے خون کے چھینٹیں ان انگنت بلوچ شہدا کے خون سے ہموار ہوکر 11 اگست 1947 میں بلوچ وطن کی آزادی پر منتج ہوئی۔

برطانوی راج کی طویل آمریت کے بعد بلوچستان پر پاکستان کے جبری قبضے کی حمایت کرکے انگریز نے بلوچوں سے اپنی بے پنا نفرت کو جاری رکھا۔ 11 اگست 1947 کی آزادی کے چند ہی مہینوں بعد پاکستانی خونخوار جرنیلوں نے بلوچ قوم کی امیدوں اور ایک آزاد خودمختار زندگی کی امنگوں کے امنڈتے دریا کا راستہ روکا اور غلامی کی زنجیروں میں اسے پھر سے جکڑے رکھا۔ پاکستانی جرنیلوں نے انتہائی نسلی نفرت کے ساتھ بلوچستان میں پوری شدت سے اپنی ڈرٹی وار شروع کردی۔ فوج کے ڈرٹی وار نے نوجوان طالب علموں، بزرگ، خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اغوا کرکے ان کو اذیت ناک تشدد کے زریعے قتل کرکے ان کی لاشیں ویرانوں جنگلوں میں پھنک کر، “مارو اور پھینکوں” کی پالیسی اپنائی۔ اجتماعی قبریں دریافت ہوئی، اذیت گاہیں قائم کئے گئے، ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے فوج اور ڈیتھ اسکواڈ نے ملکر سیاسی کارکنوں کو اذیت گاہوں میں تشدد کرتے رہے۔

سادہ لوح بلوچ عوام کے روزگار ماہی گیری اور بارڈر پر مزدوری سے وابستہ ہے لیکن ان فوجی جرنیلوں نے ان کے روزگار کے تمام ذرائع بھی سیکورٹی کے نام پر مشکلات پیدا کر کے محدود کردیے ہیں، ماہی گیروں، مزدوروں، طالب علموں اور دیگر شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق چھین لیے ہیں۔ ہزاروں لوگ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔

فوجی جرنیلوں نے گرفتار اور اغوا کئے جانے والوں کو جیل میں رکھنے کی رسم ختم کردی۔ انہیں سالوں خفیہ اذیت گاہوں میں رکھا جاتا ہے، پارلیمانی سیاسی جماعتوں، عدالت اور وکیلوں، جرنسلٹ اور میڈیا سب کی اہمیت ختم کردی گئی ہے۔ فوجی جرنیل مختلف ادوار میں تبدیل ہوتے ہیں لیکن بلوچستان میں بلوچوں کے لیے پالیسی ایک ہی رہتی ہے۔

بلوچستان پر پاکستان کی جابرانہ قبضہ کو بلوچوں نے قبول نہیں کیا۔ بابو نوروز خان نے اپنے بیٹوں اور ساتھیوں کے ساتھ ملکر پاکستانی جرنیلوں کی زبردستی اور بزور طاقت قبضے کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ بعینہ ماضی قدیم کے بلوچوں کی طرح آج کے بلوچ اپنی قومی اور وطنی آزادی کے خواہاں ہے وہ سب کچھ کرسکتے ہیں مگر وطن پر کبھی سودا بازی نہیں کرتے یہی اسکی نفسیات ہے اور یہی اسکا ماضی، بابو نوروز خان اور اس کے بہادر بیٹوں کے خون کے چھینٹیں جنرل شیروف کی خونی جدوجہد سے ہوتی ہوئی شہید مجید (اول) شہید حمید اور شہید اسد مینگل کی شہادت تک، شہید اسد مینگل کے خون کے چھینٹیں نواب اکبر خان اور شہید بالاچ خان سے ہوتے ہوئے شہید سدو مری اور شہید قائد غلام محمد اور ساتھیوں کی شہادت تک اور آگے چل کر یہ وطن کی خاطر بہتا ہوا خون شہید بانک کریمہ اور شہید شاری بلوچ کی شہادت نے یہ ثابت کیا کہ میر محراب خان کا خون آج بھی کہہ رہا ہے کہ “ممکن ہے کہ دشمن مجھے شکست دے لیکن میں اپنی وطن کے لیے اپنی موت کو گلے لگا سکتا ہوں” میر محراب خان کا یہ فلسفہ وطن کی آزادی تک جاری رہیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں