بلوچستان کے علاقے بولان میں گذشتہ آٹھ دنوں سے فوجی جارحیت زوروں سے جاری ہے، وہیں مخلتف مکتبہ فکر کے لوگ فوجی جارحیت کے خلاف سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر مہم چلا رہے ہیں اور اس فوجی جارحیت کی مذمت کررہے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بولان سے بلوچ بچوں اور خواتین کی جبری گمشدگی پورے کمیونٹی کو اذیت دینا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ قانون اور عدالتوں کی موجودگی میں جبری گمشدگی بذات خود آئین قانون اور عدالت کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔ ظلم و جبر سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ مزید نفرتیں جنم لیتے ہیں۔
بولان سے بلوچ بچوں اور خواتین کی جبری گمشدگی پورے کمیونٹی کو اذیت دینا ہے۔
آئین قانون اور عدالتوں کی موجودگی میں جبری گمشدگی بذات خود آئین قانون اور عدالت کو نہ ماننے کی مترادف ہے۔
ظلم جبر سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ مزید نفرتیں جنم لیتے ہیں۔#SaveBalochWoman— Manzoor Pashteen (@ManzoorPashteen) November 6, 2022
خیال رہے کہ بولان میں جاری فوجی آپریشن کو آج آٹھ روز ہوچکے ہیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ گذشتہ دنوں دوران آپریشن فورسز اور مسلح افراد کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئے ہیں۔
جھڑپوں کی تصدیق کرتے ہوئے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر ) کرتے ہوئے اپنے دو فوجیوں کے ہلاکت کی بھی تصدیق کردی ہے۔
وہیں دوسری جانب بلوچ قوم پرست اور انسانی حقوق کے ادارے الزام عائد کررہے ہیں کہ دوران آپریشن فورسز نے متعدد افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔
ابتک لاپتہ ہونے والے تیرہ خواتین اور بچوں کی شناخت ہوچکی ہے۔ جن میں زرگل مری، حنیفہ مری، در خاتون مری، ماہسو سمالانی، گل بی بی سمالانی، سمو سمالانی، زر بخت سمالانی، بانی سمالانی، سمیدہ سمالانی، فریدہ سمالانی، راجی سمالانی اور چار سال سے لاپتہ رکھیہ سمالانی کی اہلیہ مہنا سمالی اور بیٹا کلیم سمالانی شامل ہیں-
گذشتہ دنوں سانگان کے قریب سفری کے مقام سے محمد غوث ولد افضل خان مری کی لاش برآمد ہوئی جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے مذکورہ شخص کو جاری فوجی آپریشن کے دوران قتل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص کو اس سے قبل ستمبر 2021 کو فورسز نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا گیا تھا، بعدازاں تین مہینوں کی گمشدگی کے بعد رہا کر دیا گیا تھا اور اب اس کو قتل کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بولان و گردنواح میں آپریشن کا آغاز ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بلوچ لبریشن آرمی نے گذشتہ دنوں زیر حراست دو پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی رہائی کے بدلے اپنے مطالبے کے لیے 4 نومبر تک کا آخری الٹی میٹم دیا۔
گذشتہ دنوں بی ایل اے کے ترجمان نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا کہ بی ایل اے پاکستانی فوج کو جنگی قیدیوں کے تبادلے کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت دیتی ہے، جس کے فوری بعد بی ایل اے کے زیر حراست جنگی قیدیوں جونیئر کمیشنڈ آفیسر کلیم اللہ اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنٹ محمد فیصل کو بلوچ قومی عدالت سے ملنے والی سزا پر فوری عملدرآمد کی جائیگی-
یاد رہے کہ بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں متعدد بار پاکستانی فوج پر یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ بلوچ مزاحمت کاروں پر آپریشن کے نام پر بلوچستان کے دیہی علاقوں کے عام شہریوں پر بمباری کی جاتی ہے اور اس دوران گرفتار و جانبحق افراد کو مزاحمت کار ظاہر کیا جاتا ہے۔