بدھ کے روز بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ، رکن پاکستان اسمبلی سردار اختر مینگل کی سربراہی میں جبری لاپتہ افرادکے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم کردہ کمیشن کے ارکان نے بلوچستان یونیورسٹی میں لاپتہ طلبہ سے متعلق جامعہ کے طلبہ سے ملاقات کی ہے ۔
سردار اختر مینگل کی سربراہی میں لاپتہ افرادکے بارے کمیشن نے بلوچستان سے لاپتہ طلبہ اور دیگر مسائل کے متعلق جامعہ بلوچستان کے طالب علموں سے ملاقات میں طلباء نے سیکورٹی اداروں سے متعلق اپنے تحفظات پیش کرتے ہوئے مسائل کی انبار لگا دی۔
طلباء نے کہا کہ سیکورٹی ادارے جب چاہیں یہاں کلاس روم اور ہاسٹلوں میں گھس کر کسی کو بھی لاپتہ کرسکتے ہیں۔
طلباء نے سیکورٹی فورسز پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے جتنے ساتھی اٹھائے گئے ہیں کئی کو پھر جھوٹے کیسز لگاکر انکی جعلی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ہمارے دو ساتھیوں کو یہاں ہاسٹل سے پاکستانی فورسز نے لاپتہ کردیا تھا جن کے لئے ہم آج تک سراپا احتجاج ہیں لیکن وہ تاحال پاکستانی فورسز کے تحویل میں ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے استاد نے کہا کہ میرے ایک اسٹوڈنٹ کو دو مہینے تک ٹارچر سیلوں بند کرنے کے بعد جب چھوڑ دیا گیا تو اسکے چہرے پر ہمیشہ کیلئے ایک ڈر اور خوف نظر آتا ہے جسے میں خود نہیں دیکھ سکتا
کیا کمیشن کے اراکین اور سربراہ کے جانے کے بعد ہمیں اٹھایا نہیں جائے گا۔
اس موقع پر اخترمینگل نے جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر سے کسی کو گلہ کرنے کا حق نہیں اسکے گھر پر کسی اور نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جامعہ میں ایف سی کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ وی ڈیو اسکینڈل سمیت تمام چیزوں کا بغور جائزہ لیکر رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرینگے
انکا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں خوف کا ماحول ہے ، سیکورٹی فورسسز یونیورسٹی کے اندر کیا کررہی ہیں ؟ وائس چانسلر کے گھر پر بھی قبضہ ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ بندوق کے سائے میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں یہاں سے بندوق اور وردی ہٹائیں اور ایک اچھا سا ماحول پیدا کریں۔
انہوں نے کہا کہ ملک انکے قبضے میں ہے بلکہ تعلیمی ادارے ہمارے گھر اور بچے انکے قبضہ میں ہیں ہم اسکے خلاف آواز اٹھائیں گئے۔