بلوچستان کے ضلع بولان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن،خواتین اور بچوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے، بلوچ طلباء کی بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیوں اور مقدمات پہ آج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کراچی پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔
جس میں شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو آج ایک مقید گاہ اور مقتل گاہ میں بدل دیا گیا ہے، بولان سے گزشتہ دنوں تیرہ خواتین بشمول بچے غیر قانونی حراست میں لیئے گئے جنہیں بعدازاں عوامی ردعمل، سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی اپیل اور دباؤ کے بعد رہا کر دیا گیا جو خوش آئند بات ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے ان بے گناہ اور باعزت بلوچ خواتین اور بچوں کو کیوں غیر قانونی حراست میں لیکر حبس بے جا میں رکھا گیا، ان کو ہراساں کرکے انکے وقار اور عزت نفس کو مجروح کیا گیا، اسکے ذمہ دار ریاستی ادارے ہیں اور انہیں اس کا جواب دینا ہوگا۔
مظاہرین نے کہا کہ بلوچستان میں نوجوانوں اور طلباء کو مسلسل جبری گمشدگیوں کا شکار بنایا جا رہا ہے، ان کو کئی مہینے ٹارچر سیل میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان پہ ناجائز اور جھوٹے مقدمات لگا کر انہیں منظر عام پر لایا جا رہا ہے جو انتہائی تشویشناک عمل ہے، ان نوجوانوں کے زندگیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے انکے تعلیم کو ضائع کیا جا رہا ہے، گلشاد بلوچ کو ملیر سے کراچی آتے ہوئے جبری لاپتہ کیا گیا جبکہ بعد میں اس پہ جھوٹا الزام لگا کر اس کو جیل میں ڈال دیا گیا، گلشاد بلوچ جیسے متحرک سماجی کارکن کو زندانوں کے نظر کرنا، بلوچ سماج کو اندھیرے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو بلوچوں کیلئے ایک قید خانہ میں تبدیل کیا گیا ہے، جہاں ہر طبقہ فکر کے لوگ اس جبر کے شکار ہیں، لوگوں کو بلا وجہ سالوں جبری لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر، تشدد سے لوگ اس قدر ذہنی ٹارچر کا شکار ہیں کہ خود کشی کر رہے ہیں، ایک مہینے کے دوران تین خودکشی کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن کے گھر پہ فورسز مسلسل چھاپہ مارتے رہے ہیں، انکے فیملی کے افراد کو جبری گمشدگی کا شکار بن کر انہیں فورسز مسلسل تنگ کرتے رہے ہیں، حالات سے تنگ آکر لوگ خود کشی کر رہے ہیں،ان تمام تر حالات کی ذمہ دار ریاستی ادارے ہیں اور ان کو جوابدہ ہونا ہوگا، ملکی اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں جبر، بربریت، جبری گمشدگیوں ،جعلی مقابلوں اور بلوچ نسل کشی کا نوٹس لیں اور ان کو روکنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔