اقوام متحدہ نے ایران کی جانب سے جاری مظاہروں کے خلاف مہلک کریک ڈاؤن کرنے پر مذمت کی ہے، جو ملک بھر میں تقریباً دومہینے سے جاری ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ترجمان جیرمی لارنس نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس چیفولوکر ٹرک نے کہا ہے کہ ایران میں جاری مظاہروں میں بڑھتی ہوئی ہلاکتیں، جس میں بچے بھی شامل ہیں، اور سیکیورٹی فورسز کیجانب سے سخت ردعمل ملک میں تشویش ناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم متعلقہ حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ عوام کے مساوات، وقار اور حقوق کے مطالبے کو سنیں، اور غیرمتناسب اورغیر ضروری فورسز کا استعمال کرکے مظاہرین کی آواز نہ دبائیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدم احتساب ایران میں مسلسل جاری ہے اور ایران میں لوگوں کی تکالیف میںمزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔رائٹس گروپ نے بتایا کہ ان کے یہ تبصرے پیر کے روز ایرانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مغربیایران کے کرد آبادی والے علاقوں میں کریک ڈاؤن تیز کرنے کے بعد سامنے آئے ہیں، جہاں پر مظاہرین پر براہ راست بھاری ہتھیاروںسے فائرنگ کی گئی اور 24 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔16 ستمبر کو 22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعدملک بھر میں غیریقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو کئی برسوں بعد ایران کے مذہبی حکمرانوں کے لیے پریشان کن صورتحال کا باعثبن گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے دفتر نے بتایا کہ جب سے مظاہرے شروع ہوئے ہیں، اس وقت سے اب تک 300 لوگ ہلاک ہوچکے ہیںجن میں 40 بچے بھی شامل ہیں۔
ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس گروپ نے ہفتے کو بتایا کہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد کم از کم 378 ہو چکی ہے۔
آئی ایچ آر کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند دنوں میں کئی شہروں میں خاص طور پر شدید حکومت مخالف مظاہرے ہوئے ہیں۔
لارنس نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ کردش شہروں میں گزشتہ ہفتے 40 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ویک اینڈ پر ہلاکہونے والے 6 افراد میں دو 16 سال کے لڑکے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں سیکیورٹی فورسز کی نمایاں تعداد کو تعینات کیا گیا ہے، رات کو ہمیں اطلاعات ملیں کہ سیکیورٹیفورسز نے مظاہروں پر طاقت کے ذریعے ردعمل دیا۔ان کا کہنا تھا کہ مظاہرے شروع ہونے سے اب تک ایران کے 31 میں سے 25 صوبوںمیں مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سیستان اور بلوچستان بھی شامل ہے، جہاں پر 100 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شروع سے ہی،“ایران کے 31 میں سے 25 صوبوں میں مظاہرین کو ہلاک کیا جا چکا ہے، جن میں سیستان اوربلوچستان میں 100 سے زیادہ شامل ہیں۔