امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے متعدد ریاستوں میں رپبلکن امیدواروں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں تاہم ان علاقوں کے نتائج کا انتظار ہے جو کانگریس میں اکثریت اور جو بائیڈن کی صدارت کے بارے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹس کو 41 نشستوں پر برتری جبکہ رپبلکنز کو 40 نشستوں پر برتری حاصل ہوگئی ہے، جبکہ مجموعی برتری کے لیے 50 نشستیں ضروری ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق تاریخی اعتبار سے لبرل ہونے کے باوجود میساچوسیٹس، میری لینڈ اور الینوئے جیسی ریاستوں نے ماضی میں اعتدال پسند رپبلکن گورنروں کا انتخاب کیا۔
لیکن اس سال ان ریاستوں میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایت یافتہ رپبلکنز زیادہ پیچھے دکھائے دیئے اور ایک سال میں فتح آسانی سے ڈیموکریٹس کے حوالے کر دی گئی جو دوسری صورت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے مشکل ثابت ہو سکتی تھی۔
میسا چوسیٹس اور میری لینڈ میں تاریخی طور پر پہلی مرتبہ کچھ نیا ہوا ہے۔ ڈیموکریٹ مورا ہیلی اعلانیہ طور پر پہلی ہم جنس پرست شخصیت بنیں اور میساچوسیٹس کی پہلی خاتون گورنر بن گئیں۔ ویس مور میری لینڈ کے پہلے سیاہ فام گورنر منتخب ہو گئے جب کہ الینوئے کے موجودہ گورنر جے بی پرٹزکر عہدے پر برقرار ہیں۔
ریاست فلوریڈا جو کبھی ایک اہم ’بیٹل گراؤنڈ‘ ریاست ہوا کرتی تھی وہاں رپبلکن پارٹی کے قدم مسلسل مضبوط ہوئے ہیں اور رون ڈی سانٹس دوسری مرتبہ گورنر منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ڈیموکریٹک حریف چارلی کرسٹ کو شکست دی جو کانگریس کے سابق رکن ہیں۔
الیکشن میں کامیابی کی بدولت ڈی سانٹس قومی سطح پر رپبلکن سٹار بن کر ابھرے ہیں اور انہوں نے 2024 میں صدارتی انتخاب پر نظریں جمالی ہیں۔
اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ بنیادی رپبلکن متبادل کی حیثت سے ان کی پوزیشن اچھی ہوسکتی ہے۔
فلوریڈا سے سینیٹر مارکو روبیو بھی دوبارہ منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ڈیموکریٹ امیدوار وال ڈیمنگز کو ہرایا۔ ان کے انتخاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کا جھکاؤ دائیں بازو کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔
ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی انتخابی دوڑ کا نتیجہ بائیڈن کے ایجنڈے کے مستقبل کا تعین کرے گا اور ان کی انتظامیہ کے لیے ریفرنڈم کا کام کرے گا کیوں کہ امریکہ اس وقت ریکارڈ افراط زر جیسے خدشات کا سامنا کر رہا ہے۔
ایوان نمائندگان میں رپبلکن غلبے کے نتیجے میں اس بات کا امکان ہے کہ بائیڈن اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات کے دور کا آغاز ہو جائے جب کہ سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کی اکثریت کی صورت میں بائیڈن کی عدلیہ میں تقرریوں کی صلاحیت متاثر ہو گی۔
ڈیموکریٹس کو تاریخی طور پر مشکلات کا سامنا رہا۔ اقتدار میں رہنے والی پارٹی کو صدر کے پہلے وسط مدتی انتخابات میں تقریباً ہمیشہ ہی نقصان کا سامنا کرنا پرا لیکن ڈیموکریٹس کو امید تھی کہ اسقاط حمل کا حق ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ناراضی ان کے ووٹروں کو تاریخی رجحانات کے خلاف مضبوط بنا سکتی ہے۔
یہاں تک وائٹ ہاؤس میں شام کو انتخابی نتائج دیکھنے والے بائیڈن نے پیر کی رات کہا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ ان کی جماعت سینٹ میں اکثریت برقرار رکھے گی لیکن ایوان نمائندگان میں صورت حال زیادہ مشکل ہو گی۔
ریاست جارجیا میں ڈیموکریٹک سینیٹر رافیل وارنوک اور ان کے رپبلکن حریف ہرشل واکر کے درمیان اس نشست پر مقابلہ تھا جو سینیٹ میں کنٹرول کا تعین کر سکتی ہے۔
ورجینیا میں ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹ رکن ایبی گیل سپین برجر اور ایلین لوریا کا پرجوش رپبلکن حریفوں سے مقابلہ تھا۔ یہ انتخابی معرکہ کا پیشگی اشارہ ہو سکتا تھا کہ ایوان میں اکثریت کس طرف جا رہی ہے۔
رپبلکنز کو امید ہے کہ وہ ان مضافاتی علاقوں میں اپنی نشستیں دوبارہ جیت لیں گے جہاں رجحان ڈونلڈ ٹرمپ کی ہنگامہ خیز مدت صدارت کے دوران ڈیموکریٹس کی طرف منتقل ہوگیا تھا۔
اے پی ووٹ کاسٹ کے قومی سطح پر انتخابی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ مہنگائی اور جمہوریت کی کمزوری کے بارے میں خدشات ووٹروں کو بہت زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔
ملک بھر میں پولنگ کے دوران چند بڑے مسائل کی اطلاعات سامنے آئیں۔ نیوجرسی میں چند الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں نے کام چھوڑ دیا۔
فلاڈیلفیا جہاں ڈیموکریٹس کو زیادہ ٹرن آؤٹ کی امید تھی وہاں لوگوں نے شکایت کی انہیں اس وقت واپس بھیج دیا گیا جب وہ ڈاک کے ذریعے پہلے سے ڈالے ووٹوں کے معاملے میں مسائل دور کرنے کے لیے ذاتی طور پر گئے۔
میری کوپا کاؤنٹی، اریزونا جس میں فینکس شہر شامل ہے اور ریاست کی سب سے بڑی کاؤنٹی ہے، وہاں حکام نے تقریباً 20 مقامات پر ووٹنگ مشینوں کے مسائل رپورٹ کیے۔
متعدد ریاستوں میں ووٹنگ اب بھی جاری ہے جہاں ریاستی گورنر کے لیے بڑے مقابلے ہو رہے ہیں۔ ان ریاستوں میں پینسلوینیا، نویڈا، ونکونسن، اریزونا اور مشی گن بھی شامل ہیں۔
رپبلکنز کی جیت کی صورت میں کیا ہوگا؟
اے ایف پی کے مطابق الیکشن میں رپبلکن پارٹی کی کامیابی ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی راہ ہموار کر سکتی ہے جو زیادہ تر معاشی مسائل پر انتخابی مہم چلانے کے بعد انتخابات میں دھاندلی کے بے بنیاد دعووں کی طرف لوٹ آئے۔
بائیڈن، جن کو امید ہے کہ ڈیموکریٹس ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں کامیابی حاصل کر لیں گے، نے خبردار کیا ہے کہ رپبلکنز جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ ہیں کیوں کہ پارٹی کے آدھے سے زیادہ امیدوار دھاندلی کے ٹرمپ کے اس مسترد شدہ دعوے کو دہرانے میں مصروف جو سابق صدر نے 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد کیا۔
متعدد ریاستوں میں ڈیموکریٹس اور رپبلکن امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی مکمل تصویر سامنے آنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ایریزونا جس کے بارے میں توقع ہے وہ ان ریاستوں میں ایک ہو گی جہاں سخت ترین مقابلہ ہو گا۔
اس کے علاوہ رپبلکنز نے گنجان آباد ترین میری کوپا کاؤنٹی میں ووٹنگ مشین کے مسئلہ سامنے آنے کے بعد پولنگ جاری رکھنے کا مقدمہ دائر کیا۔ اگرچہ حکام کا کہنا تھا کہ کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا گیا۔