آہ! سنگت بالاچ مری
تحریر: جنرل اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
خوبصورت آنکھیں کسی بھی چیز پر جماکر ذہن میں گہرائی سے کسی کے متعلق مشاہدہ کرنے والی ادا کا مالک، لاشعور کے خوبصورت تصورات سے نکل کر تلخ حقائق کا سامنا بڑے صبر اور دلیری سے کرنے والا سنگت بالاچ مری، بدقسمتی سے آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ زندگی اور موت کا فطری واسطہ کسی بھی طاقتور یا کمزور کی خواہشات کے مطابق تکمیل پذیر نہیں ہوتا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جن میں کچھ حادثاتی، کچھ طبعی اور کچھ سوچ و فکر کے برعکس۔تضادات اور حق و باطل کے بیچ پیدا ہونے والے حالات میں اپنے لیے آپ تعین کرنے سے متعلق رکھتے ہیں، یہاں منتخب راہ پر انجام کا یقین پختہ ہوتا ہے۔ مجھے اور میرے جیسے لاکھوں بلوچ فرزندوں کو شہید سنگت بالاچ مری پر فخر ہے کہ اس نے جس راستے کا انتخاب پورے ہوش و حواس سے کیا وہی حقیقی بلوچ نجات کا ذریعہ ہے۔
ویسے تو مختصر ملاقاتیں، مختلف اوقات میں 1997ء سے 1999ء تک شہید سنگت بالاچ مری سے ہوچکی تھیں، جسٹس نواز قتل کیس کے بعد جلاوطنی میں ایک دو مرتبہ فون پر صرف حال احوال ہوا۔ ساتھیوں کے مشورے سے جب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور پھر کوہستان مری کے ہیڈ کوارٹر کاہان تشریف لائے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ان دنوں کسی کام کے سلسلے میں کرمو وڈھ، تراتانی سے ہوتے ہوئے سیاہ گری پہنچا تو پتہ چلاکہ شہید سنگت بالاچ مری کاہان میں موجود ہیں۔ ساتھیوں سے ملاقات کی اجازت لے کر میں چند ساتھیوں سمیت کاہان پہنچا۔ رات کو کھانا کھانے کے بعد تفصیل سے بات چیت ہوئی تب میں نے پایا کہ شہید سنگت بالاچ مری ایک پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ قومی کاروان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ طاقتور قبضہ گیر دشمن کے مقابلے میں کمزور اور بے پناہ فوجی اور دنیا کے نقشے پر تسلیم شدہ غیر فطری ریاست کے مقابلے میں ایک گروہ کی حیثیت سے اور ایک طرف مکمل تربیت یافتہ، تعداد میں کم ساتھیوں کے ساتھ اس جذبے کے ساتھ میدان میں اُتراکہ ہم بدل سکتے ہیں۔ہم ضرور بدلیں گے اور ہم نے ہی بدلنا ہے، چاہے ہماری جان جائے، گھر،بچے، خاندان، عیش و آرام سب کچھ قربان کرکے اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو بھی مجھے پرواہ نہیں کیونکہ ہم اپنے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ راہ نجات واضح کرکے جارہے ہیں اور تاریخ میں اپنے فرض کی بابت کسی بھی خوف و لالچ میں آئے بغیر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے شہداء اور اکابرین کے نقش قدم پر چل کر سرخروہوں گے۔
یہ جذبہ و الفاظ تھے شہید سنگت بالاچ مری کے، اس تمام عرصے میں وہ عسکری محاذ پر برسرپیکار ساتھیوں کے ساتھ رہے اور بہت سے مواقع پر ساتھیوں کی بہترین رہنمائی کی۔ شہید سنگت بالاچ مری کے عسکری محاذ پر موجودگی نے تنظیمی ساتھیوں کو اور زیادہ حوصلہ دیا۔ شہید سنگت بالاچ مری کے ساتھ اکثر و بیشتر ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا ہم جب بھی کسی تنظیمی کام کے سلسلے میں سیاہ گری یا کرمووڑھ جاتے تو سنگت بالاچ مری سے نشست ضرور ہوتی، جس میں سب سے زیادہ جو مسئلے زیر بحث آتے ان میں سیاسی محاذ پر قابض علی بابا اور چالیس ٹھگوں کا ذکر ضرور ہوتا جو نہ تجربہ، نہ دلیل اور بغیر منطق کے بلوچ کی قومی کمزوری اور تعلیم کو جواز بناکر قابض کی قبضہ گیری کو جائز قرار دیتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں کرتے اور جو بلوچ کی قومی حیثیت اور جغرافیائی قومی وحدت کو قبضہ گیر اور صوبہ میں ضم مراعات اور رائلٹی کا ناروا مطالبہ کرکے اپنے لیے پس پردہ مراعات حاصل کرتے ہوئے ذرابرابر بھی خوف و عار محسوس نہیں کرتے۔
کوہستان مری اور ڈیرہ بگٹی میں فوجی حملے کے وقت میں بولان کے محاذ پر تھا، شہید سنگت بالاچ مری سے ہمارا رابطہ رہتا تھا۔بدقسمتی سے فوج کشی کے بعد ہماری روبرو ملاقات نہیں ہوئی، قابض دشمن کی طرف سے تین ریڈ ٹارگٹ: شہید نواب اکبر خان بگٹی، شہید بالاچ مری اور اللہ سلامت رکھے نوابزادہ براہمدغ بنائے جانے کے بعد دشمن کی توجہ کی مرکز ڈیرہ بگٹی اور بھمبورسمیت مری علاقہ رہا۔ اس تمام محاصرے اور حملے میں شہید سنگت بالاچ مری اور ساتھی اپنی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے علاقے میں موجود رہے، شہید نواب اکبر خان بگٹی کا سانحہ بھی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی مثل رہا۔ اس ساری جنگ میں دشمن کی کامیابی اور رسائی نواب شہید کی قابلیت اور ہنر‘ اس حد تک رہا کہ وہ ہمارے اندر موجود جعفر و صادق تک پہنچ سکا ورنہ تو یہ خواہش بھی ایک خواب رہ جاتا۔
اس تمام عرصے میں شہید سنگت بالاچ مری اور نوابزادہ براہمدغ بگٹی جنگی حکمت عملی کے تحت بلوچ سرزمین کے علاقے بدلتے رہتے اور ساتھیوں کی قیادت کرتے رہتے اور کبھی ایک لمحے کے لئے بلوچوں کی نا اتفاقی، تعلیم سے دوری،کمزوری،کم تعداد ،سیاسی اور عسکری محاز کو جواز بنا کر اپنی ذ مہ داریوں سے رو گردانی نہیں کی،ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ اس جنگ کو جاری رکھ کر ہی ہم اپنی تمام قومی خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پائیں گے اور جنگ ہی ہمارا کھرا اور کھوٹا الگ الگ کرے گا۔
میرا آخری رابطہ شہید سنگت بالاچ مری کی شہادت سے شاید دو گھنٹے پہلے ہوا، وہ آواز جو ، اب شاید میں زندگی بھرنہ سن سکوں وہ مہربان دوست ،جو ہم سے جدا ہوا، کو ہم میں سے ہر ایک نے شدت سے محسوس کیا اور ہمارے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ یہ وقت تو جانے کانہیں تھا۔خیروہ قومی فکر جو تیمور، مغل، عرب، انگریز قبضہ گیروں اور حملہ آوروں کے خلاف بلوچ فرزندوں نے اپناکر سرزمین اور قوم کی پاسبانی کی ، جنہوں نے غلامی کی زندگی سے شہادت کو ترجیح دی اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن گئے خوش قسمتی سے شہید سنگت بالاچ مری بھی اسی فکر کا پاسدار رہا جس نے اپنا سب کچھ قوم و وطن کی بابت فرائض کی ادائیگی پر قربان کرکے یہ ثابت کردیا کہ وطن کے مخلص سپوت کے لیے جدوجہد اور اس بابت موت ہی کامیابی ہے اور ناکامی اور تذلیل ہے، فرائض سے روگردانی، قربانی سے کترانا ، مصلحت پسندی اور بزدلی۔نوجوانوں، شہید نواب اکبر اور شہید سنگت بالاچ مری کی شہادت نے ہم سب کے لیے ایک واضح پیغام چھوڑا ہے کہ ذاتی اور انفرادی فکر چھوڑدو، اپنا وقومی فکر اور کسی بھی قربانی کے لیے تیار ہوجاؤ،تاکہ حاصل کرسکو اپنی آزادی جو تمہارا اور ہمارا سب کا فطری حق ہے۔
(نوٹ۔ یہ کالم جنوری2008کو شائع ہوچکا ہے۔)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں