بدھ کے روز کراچی پریس کلب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریٹری سمی دین بلوچ اور دیگر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں پنجاب کے شہر ملتان کے نشتر اسپتال سے متعدد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جن پہ اسپتال انتظامیہ اور پنجاب حکومت کے متضاد بیانیے سامنے آ رہے ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر نے خود وہاں سینکڑوں لاشوں کی موجودگی کا اعتراف کیا جبکہ اسپتال انتظامیہ محض چار لاشوں کی برآمدگی کا دعویٰ کر رہے ہیں، اور ہمیں بطور لاپتہ افراد کے لواحقین اور تنظیم ان کثیر مقدار میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پہ شدید خدشات لاحق ہیں، لاشوں کے جو ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئے ہیں ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لاشوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہ مبینہ طور پر لاپتہ افراد کے ہو سکتے ہیں جن کو فورسز نے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے بعد ایسے اسپتال انتظامیہ کے حوالے کیا ہوگا، طب سے متعلقہ افراد بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی اسپتال میں میڈیکل طلباء کے پریکٹس کیلئے اتنی بڑی تعداد ڈیڈ باڈیز فراہم نہیں کرتے ہیں ، لہٰذا ہم سپریم کورٹ آف پاکستان اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان لاشوں کے برآمدگی کا شفاف طریقے سے انکوائری اور ان لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کی جائے، اور حقائق سامنے لایا جائے
انہوں نے کہا کہ ہم نے جولائی کے مہینے میں زیارت میں گیارہ جبری لاپتہ افراد کے جعلی مقابلے میں مارے جانے کے خلاف، انکے لواحقین کو انصاف دلانے، ان جعلی مقابلوں کو روکنے اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے 22 جولائی سے 8 ستمبر تک کوئٹہ میں پچاس دنوں تک پر امن احتجاجی دھرنا دیا ، وفاقی حکومت کی طرف سے آئے ہوئے وفاقی وزراء کے وفد کی تحریری یقین دہانیوں پہ اپنا احتجاجی دھرنا ختم کیا، ہمیں ہمیشہ جھوٹی تسلیاں اور یقین دہانیاں دی جاتی ہیں جن پہ عملدرآمد نہیں ہوتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ہم نے وفاقی کمیٹی کے وفد کو تین مہینے کا مہلت کے ساتھ ان لاپتہ افراد کی ایک ایسی لسٹ فراہم کردی تھی جس میں ان سب کے لواحقین وہاں دھرنے میں ہمارے ساتھ تھے، اسی لسٹ میں 36ویں نمبر پہ تابش وسیم کا بھی نام ہے جس کو گذشتہ روز سی ٹی ڈی نے نوشکی میں جعلی مقابلے میں قتل کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دھرنے کے خاتمے کے بعد ان چالیس دنوں میں اب تک چالیس کے قریب لوگوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے، جبکہ سی ٹی ڈی نے بلوچستان کے مختلف مقامات پر پانچ جعلی مقابلوں کے واقعات میں اب تک اٹھارہ افراد کو قتل کیا گیا ہے، جن میں اب تک بیشتر کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ افراد سے ہوئی ہے جو ریاستی تحويل میں رہے ہیں، گذشتہ دنوں سی ٹی ڈی نے دو مختلف واقعات میں نو افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا، جن میں سے پانچ کو مستونگ اور چار کو نوشکی میں قتل کیا گیا۔
سمی دین نے کہا کہ نوشکی میں قتل کیے گئے چاروں افراد میں سے اب تک تین افراد کی شناخت پہلے سے جبری لاپتہ افراد سے ہوئی ہے جنکے کوائف ہمارے تنظیم کے پاس موجود رہے ہیں، ان میں سے تابش وسیم جس کو 9 جون 2021 کو کوئٹہ سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا انکے دوست اور رشتہ دار دھرنے میں بھی شریک رہے ہیں اور ان کا کیس اس لسٹ میں بھی درج ہے جو ہم نے وفاقی کابینہ کو دیا تھا۔
انکا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کہ ان تین مہینوں میں جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کے قتل کو روکنے میں کوئی مثبت پیش رفت ہوئی ہوتی بلکہ اس میں مزید اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے، دو دن پہلے کراچی کے علاقے لیاری چھیل چوک سے فورسز نے بلوچستان ضلع کیچ کے رہائشیوں تین افراد زھیر ، چاکر اور سراج جو جبری گمشدگی کا شکار بنایا ، جو تاحال لاپتہ ہیں، پچھلے دو مہینوں کے دوران جبری گمشدگیوں میں اضافہ، جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کے قتل، نشتر اسپتال ملتان میں متعدد مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے ہمارے خدشات تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں، کیا ہمیں ان واقعات سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ پر امن مظاہرہ، احتجاج، دھرنوں اور قانونی چارہ جوئی سے اس ریاست میں کچھ حاصل نہیں ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ ہم نے بطور اس ملک کے پر امن شہری کی حیثیت سے حقوق اور انصاف کے حصول کیلئے احتجاج کے تمام تر آئینی اور قانونی طریقہ کار اپنائے، حکومتی قائم کردہ کمیشن، عدالتوں اور کمیٹیز کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں اور ان کے یقین دہانیوں پہ اپنے احتجاجی پروگرامز کو ختم کرتے رہے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس ریاست کو ہماری کوئی پرواہ نہیں اور نا ہی ہمارے پر امن احتجاج سے ان کے مقتدرہ قوتوں پہ کوئی اثر پڑ رہا ہے، یا پھر حکومت وقت ہمیں یہ واضح لکھ دیں کہ مقتدرہ طاقتور قوتیں انکے بھی نہیں سن رہے ہیں اور ہمیں جھوٹے وعدوں اور یقین دہانیوں کے بجائے صاف لفظوں میں کہ دیں کہ ہم بھی ان طاقتور قوتوں کے سامنے بے بس ہیں۔