ہولوکاسٹ اور بلوچ نسل کشی – میرک بلوچ

282

ہولوکاسٹ اور بلوچ نسل کشی

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ جدوجہد اور المیوں سے بھرپور ہے یہ بات تاریخ سے ثابت ہے جابر و ظالم و قبضہ گیر قوتوں نے مظلوم و محکوم کا قتل عام کر کے انسانی سروں کے مینار کھڑے کر کے زیر دستوں پر خوف و دہشت پھیلائی تاکہ مظلوم و محکوم مستقل خوفزدہ ہوکر بالا دست قوتوں کا غلام بن کر تابعدار بن جائیں۔ مگر تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اپنی آزادی کے لئے مظلوم و محکوم نے اپنے تمام تر ظلم وستم کے باوجود دلیرانہ اور شاندار جدوجہد کرکے جابر و ظالموں کو شکست فاش دیکر آزادی سے سرفراز ہوئے ۔

انسانی تاریخ کا ایک خونچکاں باب نازی جرمنی کا Holocaust بھی ہے اس وحشیانہ عمل نے ساری دنیا اور خصوصاً یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کی جابرانہ یادیں یورپ آج تک بھول نہیں پایا۔ اس Holocaust کو عذابِ بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس واقعے میں 60 ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا گیا گیا۔ علاوہ ازیں 50 لاکھ کمیونسٹ پارٹیوں کے ارکان (Romani Gypsy) حزب مخالف جماعتوں کے کارکنوں کا بھی قتل عام کیا گیا۔ نازی پارٹی کو جرمنی میں اقتدار ملا اور سنہ 1930 کی دہائی میں ہٹلر جرمنی کا چانسلر بنا تو سب سے پہلے دوسری تمام پارٹیوں کا جرمنی سے صفایا کیا گیا۔ خاکی پوش وردیوں میں ملبوس نازی پارٹی کے طوفانی دستے سارے جرمنی پر چھا گئے۔ اور فوج کی تشکیل ان ہی سے ہوئی، جرمنی کے سابقہ فوج کا خاتمہ کر دیا گیا، اور ہٹلر اس فوج کا سپریم کمانڈر بن گیا اور پارٹی کے دوسرے رہنما جیسا کہ گورینگ، احملر، گوئبلز وغیرہ جنرل بن گئے، نازی پارٹی کا ہر ممبر اس فوج میں شامل تھا۔

برسراقتدار آتے ہی ہٹلر نے اپنے بھیانک منصوبے یعنی یہودیوں کے مکمل خاتمے کے عزائم کا کھل کر آغاز کیا، سارے جرمنی سے یہودیوں کے فیکٹریوں، کار و بار وغیرہ پر قبضہ کیا گیا، یہودی ڈاکٹر، اساتذہ، سائنسدانوں کو بیروزگار کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ تمام یہودیوں پر روزگار کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ان کے رہائشی علاقوں کو Getto کا نام دیا گیا۔ جہاں چاروں جانب خاردار تاریں لگائی گئی اور ان Getto کے ارد گرد دیواریں کھڑی کر دی گئی، اور ان Gettos کے باہر جرمن فوج اور پولیس کا سخت پہرہ لگایا گیا۔ ان Gettos میں مقید انسانوں کو صرف چند اوقات میں باہر نکلنے کی اجازت تھی۔

سنہ 1938 تک نازی جرمنی نے تقریباً آدھے سے بھی زیادہ یورپ کو اپنے تصرف میں لایا۔ چیکوسلواکیہ ، بلغاریہ ،ہنگری، آسٹریا، نیدر لینڈ وغیرہ پر جرمنی نے قبضہ کرلیا۔ اور ان تمام ممالک میں یہودیوں پر عتاب نازل ہوگیا اور ان ممالک میں بھی Gettos قائم کئے گئے۔

سنہ 1939 میں نازی جرمنی کا پولینڈ پر حملہ اور قبضہ کر نے کے ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔ اپنے زیر قبضہ ممالک میں جرمنی نے Gas chamber اور concentration camps قائم کئے۔ پھر ان Gettos کے باسیوں کو ٹرینوں میں بھر بھر کے ان کیمپوں میں پہنچانے لگے۔ یہ عقوبت خانے انتہائی ظالم نازی جرنیلوں کے زیر نگرانی چلائے جاتے تھے یہ ساری قتل گاہیں احملر کی سربراہی میں قائم تھے۔ ہٹلر کی خفیہ ایجنسی گسٹاپو یہودی اسکالروں، سائنسدانوں، اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں کو اغوا کرکے قتل کرتے تھے۔ اس ظلم وزیادتی سے عظیم سائنسدان آئن سٹائن بھی نہیں بچ پائے، گسٹاپو کے کارندے مسلسل آئن سٹائن کی تاک میں تھے۔ مگر آئن سٹائن اپنے کچھ ہمدرد جرمن دوستوں کی مدد سے جرمنی سے نکل کر امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ان concentration camps میں جبری مشقت لیا جاتا تھا اور خوراک بھی برائے نام دی جاتی تھی جسکی وجہ سے تین مہینے سے زیادہ کوئی بھی زندہ نہیں بچ پاتا، ان کیمپس میں عورتیں مرد اور بچے نوجوان سب شامل تھے۔ Gas chamber میں شاورز کے زریعے انہیں ہلاک کیا جاتا تھا، chambers میں لے جانے سے پہلے ان کے سارے کپڑے اور جوتے اتارے جاتے تھے، پھر بڑے بڑے ہالز میں ان کو اندر لیجاکر باہر سے سارے دروازے بند کردیے جاتے اور شاورز کے زریعے زہریلی گیس کے فوار سے چند منٹوں میں ہزاروں بے بس انسانوں کو ختم کردیا جاتا تھا۔ نازی جرمنی کے تمام مقبوضہ ممالک میں concentration camps اور Gas chambers قائم تھے۔

ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ 1939 سے دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور 1945 میں اتحادی طاقتوں نے جرمنی، اٹلی اور جاپان کو شکست فاش دی۔ جنگ کے دوران ان یہودیوں اور دوسرے ستم زدہ افراد نے جرمنی کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی، ان کو اسلحہ اور تربیت اتحادی ممالک نے فراہم کئے، ان گوریلوں نے نازی فوجیوں کے کیمپ اور چھاؤنیوں پر شاندار کامیاب حملے کئے اور کئی بار concentration camps پر جرمن فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر لاتعداد قیدیوں کو آزاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور جرمنی کے تباہی کے بعد اتحادی افواج نے ان کیمپوں سے بزاروں لوگوں کو بازیاب کیا۔ آج یہ کیمپس یورپ میں میوزیم کی حیثیت میں موجود ہیں اور ہر سال ہزاروں سیاح ان میوزیم کا دورہ کرکے ان مظلوموں کو یاد کرتے ہیں اور ان کے جوتے، کپڑوں، تصویروں اور دوسرے یادگاروں کو دیکھ کر نازیوں اور ہٹلر سے سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

اس وقت بلوچستان پاکستانی فوج کا Getto کی حیثیت اختیار کر گیا ہے سارے بلوچ علاقے Gettos بن گئے ہیں۔ اور ہر بلوچ شہر اور قصبوں میں پاکستانی فورس کے چیک پوسٹ اور کیمپ قائم ہیں۔ ہزاروں بلوچ پاکستانی فورسز اور ایجنسیوں نے اغوا کر کے لاپتہ کئے ہیں۔ توتک کے المناک واقعہ سے لیکر حال ہی میں ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت پر 500 لاشیں برآمد ہوئی ہیں اور بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارے اغوا شدہ لاپتہ افراد کی لاشیں ہیں۔ دوسری جانب نام نہاد سی ٹی ڈی فورس جو دراصل فوج ہی ہے اغوا شدہ لاپتہ بلوچ نوجوانوں کو جعلی مقابلے زریعے مارکر شہید کررہے ہیں۔ اب یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بلوچ اغوا شدہ افراد پاکستانی افواج کے concentration camps میں جبری مشقت پر مجبور ہے اور وقتاً فوقتاً ان کو کیمپوں سے انہیں لاکر جعلی مقابلوں میں شہید کررہے ہیں اور اغوا شدہ ہونے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔

جس طرح جرمن کیمپوں میں نازی فوج کے ڈاکٹر جوزف کی نگرانی میں ان کیمپوں میں قید لوگوں پر میڈیکل ٹیسٹ اور ریسرچ کئے جاتے ہیں ان کے جسم میں مختلف قسم کے جراثیم انجیکشن انجیکٹ کئے جاتے ہیں۔ ہم 100 فیصد کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے ڈاکٹرز اسی طرح کی پریکٹس بلوچ اغوا شدہ افراد پر کررہے ہیں۔ یہ بھی یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اعضاء نکالے جارہے ہیں اور انھیں یا تو بیچا جارہا ہے یا پھر لیبارٹریوں میں رکھ کر ان کو محفوظ کرکے بیرون ملک زیادہ قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے۔

اس لیے پاکستان میں واضح طور پر بلوچ قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ بلوچ پارلیمنٹ پرست اور دوسرے انتہائی بے حسی اور بے غیرتی کے ساتھ پاکستانی فوج کے ان جنگی جرائم میں برابر شریک کار ہیں۔

دوسری جانب بلوچ آزادی پسند پارٹیاں انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ جلاوطن دوست مؤثر طور پر اس کیس کو عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ ان المناک واقعات کے ردعمل میں ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ بلوچ کے ساتھ پاکستانی فوج Holocaust کے عمل میں مصروف ہے، جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد نورمبرگ میں نازی جنرلوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا گیا انہیں سزائیں دی گئیں بلکل اسی طرح پاکستانی جرنیلوں پر بلوچستان میں جنگی جرائم کے حوالے سے مقدمہ چلایا جائے اور پاکستان پر ہر طرح کی پابندی عائد کردی جائے۔ بلوچ آزادی پسند جلاوطن رہنما و کارکن اپنا یہ قومی فرض ادا کرے تاکہ بلوچ قوم اور بلوچستان پاکستانی Getto سے آزادی یقینی ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں