کولواہ کی پسماندگی ۔ نور احمد ساجدی

230

کولواہ کی پسماندگی

تحریر: نور احمد ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

کولواہ اپنی قدیم تاریخ، کلچر اور جغرافیہ کی وجہ سے بلوچستان میں ایک اہمیت رکھتا ہے، ضلع آواران جو تین تحصیل جھل جھاؤ، مشکے اور آواران پر مشتمل ہے، تحصیل آواران کا پرانا نام کولواہ تھا جنکا نام تبدیل کرکے کولواہ کی تاریخی نام کو تبدیل کیا گیا۔

اگر پسماندگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو دنیا کے پسماندہ ترین خطہ بلوچستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے جنکو تمام تر سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ کسی قوم اور علاقے کی ترقی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے لیکن کولواہ میں تعلیمی صورتحال دوسرے علاقوں سے زیادہ ابتر ہے، علاقے کی ترقی کیلئے تعلیم انتہائی اہمیت رکھتی ہے، لیکن بدبختی سے وہاں تو برائے نام کے پرانی بوسیدہ کمرے موجود ہیں لیکن اسکول میں کوئی اساتذہ تعینات نہیں، اسکول کے بوسیدہ پرانے کمروں میں بھیڑ اور بکریاں چر رہے ہیں، اساتذہ اپنے ذاتی کاروبار کے لئے بارڈر اور دوسرے علاقوں کا رخ کرچکے ہیں۔

امیر اور با اثر لوگ زیادہ تر کولواہ سے نقل مکانی کرکے دیگر شہروں میں آباد ہیں جہاں وہ اپنے بچوں کو تعلیم فراہم کر رہے ہیں لیکن غریب اور پسماندہ لوگوں کیلئے کوئی تعلیم کا بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔

کولواہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح محسوس ہوگا کہ ہم اپنی سرزمین پر نہیں بلکہ کسی غیر ملک کے بارڑر میں رہ رہے ہیں، 2013 کے قیامت خیز زلزلے برپا ہونے کے بعد علاقے کے مسائل میں بے تحقشہ اضافہ ہوا، ابتدا میں امداد کے نام پر کچھ ایسے مسیحا ہم پر نازل ہوئے جو بعد میں عوام کیلئے پریشانی کا سبب بنے۔ اب لوگ دعا کر رہے ہیں کہ کب ہم ان مسیحوں کی چنگل سے آزاد ہو کر آرام اور پرسکون زندگی گزاریں۔ سورج ڈوبتے ہی لوگوں کی آمد ورفت پر پابندی ہے، اگر کوئی مریض بیماری سے کیوں ہی نہ مرے لیکن ان کو بغیر اجازت باہر جانے کی اجازت نہیں۔

اس جدید دور میں کولواہ میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں جن سے نوجْوان استفادہ حاصل کرسکیں، پہلے اکا دکا انٹرنیٹ میسر رہی لیکن 2017 کے بعد انٹرنیٹ کی نظام کو مکمل طور پر غیر فعال بنا دیا گیا ہے، رات کو آمد ورفت پر پابندی کے ساتھ ساتھ پورے ڈسٹرکٹ آواران میں 125 موٹر سائیکل پر پابندی عائد کی گئی ہے، جغرافیہ اور کچے روڈ کی نسبت سے دیکھا جائے تو 125 موٹر سائیکل وہاں کے لوگوں کیلئے انتہائی ضرورت ہے، لیکن یہ حقوق بھی عوام سے سلب کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے نام نہاد لیڈر تو دعوے بڑے بڑے کرتے ہیں لیکن عوامی مسائل پر وہ مکمل طور پر بیگانہ ہیں، اب ان مسائل کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائے۔

کولواہ کے لوگوں کو تعلیمی حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ وہاں منشیات کو انتہائی حد تک پھیلائی جا رہی ہے، دیگر چیزوں پر تو پابندی لگائی جاسکتی ہے، لیکن منشیات کی روک تھام کیلئے کوئی ٹوٹکہ اب تک دریافت نہیں کیا گیا، بلکہ منشیات سر عام بیچی جار ہی ہے۔

ایک دانشور کا کہنا ہے کہ “اگر آپ کسی قوم کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہو تو وہاں منشیات کو عام کرو تاکہ وہاں کہ نوجْوان منشیات کے پیچھے برباد ہو جائیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ منشیات کو کیوں پھیلایا جارہا ہے، ان کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا، اس پر سب لوگ خاموش ہیں لوگوں کو پتہ نہیں منشیات دیمک کی طرح نوجْوانوں کو تباہ کر رہی ہے۔

معمولی سی بیماری کا علاج میسر نہیں، کولواہ کے باسیوں کو مجبوراََ شہر جانا پڑتا ہے لیکن اس جدید دور میں کچے سڑکوں کی وجہ سے راستے میں لوگوں کو کافی مشکلات درپیش ہوتے ہیں، ایک گھنٹے کا راستہ چار گھنٹے میں طے کرنا پڑتا ہے، حکمران اقتدار کے مزے چھک رہے ہیں، پینتالیس سالہ اقتدار پر قابض شخص کی حکومت نے پورے علاقے کو تباہی اور بربادی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ کسی کو مجال نہیں کہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائے، اکا دکا پڑھے لکھے کو معمولی ملازم دے کر انکو علاقے کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے، اور انہیں کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ ملازم کو سْیاسی سرگرمیوں اور علاقے کے مسائل کیلئے کوئی واسطہ نہیں۔

جب پڑھے لکھے لوگ خاموش رہیں گے تو کون آواز اٹھائے گا، ہم کو اب کسی مسیحا کا انتظار نہیں کرنا ہے کہ وہ آکر ہماری حالت کو بدل دے بلکہ اس کیلئے ہمیں خود جدوجہد کرنا ہے تاکہ کولواہ کو پسماندگی سے نکال کر ان کے باسیوں کو جدید سہولیات میسر ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں